امریکی انتظامیہ کے ایک ذمے دار نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک نئے سیکورٹی ڈھانچے کے لیے کوشاں ہے تا کہ داعش کی واپسی اور امریکی مفادات اور شہریوں کو ایرانی حملوں اور اس کی ہمنوا ملیشیاؤں کے خطرات سے محفوظ رکھنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی طرح خطے کے امن و استحکام کو پائیدار اور دیرپا بنانا ہے۔
اس افسر کا کہنا تھا کہ “نیٹو اتحاد کے ساتھ بہت سے موضوعات پر بات چیت چل رہی ہے۔ ان میں مشرق وسطیٰ اور وہاں نیٹو کا زیادہ بڑا کردار شامل ہے”۔ امریکی ذمے دار نے زور دے کر کہا کہ “ٹرمپ انتظامیہ خصوصی طور پر اس بات پر توجہ دے رہی ہے کہ دیگر فریقوں کو اخراجات کے بوجھ میں شریک کیا جائے۔ اسی طرح امریکی انتظامیہ نیٹو اتحاد کے قائدانہ کردار میں بھی دل چسپی رکھتی ہے”۔
انھوں نے مزید کہا کہ “تجویز میں یہ شامل ہے کہ عراق میں امریکہ کے زیر قیادت داعش تنظیم کے خلاف لڑنے والے موجودہ اتحاد کو ایک تربیتی مشن میں تبدیل کر دیا جائے اور یہ مشن نیٹو اتحاد انجام دے”۔لہٰذا برسلز میں نیٹو اتحاد کے ممالک کے وزراء دفاع کا آئندہ اجلاس خصوصی اہمیت کا حامل ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عراق میں امریکہ کی موجودگی کا مقصد اور شاید “نیٹو اتحاد کا آئندہ مشن” ایران کا مقابلہ کرنا ہو گا … بلکہ مشن کا بنیادی مقصد داعش کی واپسی کو روکنا ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ اس وقت خلیج تعاون کونسل اور خطے کے ممالک کے ساتھ زیادہ وسیع سیکورٹی اور دفاعی انتظامات تک پہنچنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ پہلے ہی خطے میں امریکی علاقائی ڈھانچے کی تجویز پیش کر چکا ہے۔ اس میں سیکیورٹی، معیشت اور مشترکہ عمل شامل ہے۔ امید ہے کہ مذکورہ شراکت داری کے حوالے سے آئندہ دو ماہ کے دوران اس مسودے پر دستخط ہو جائیں گے۔