امریکا کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن نے کاملا ہیرس کو اپنا نائب چن لیا۔
کاملا ہیرس نائب صدارتی امیدواروں میں سرفہرست تھیں اور اب وہ ہی 3 نومبر کو صدارتی الیکشن میں بائیڈن کی نائب ہوں گی، ان کے نام کی توثیق ڈیموکریٹ کنونشن میں کی جائےگی جو 17 سے 20 اگست تک جاری رہے گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ میرے لیے اعزاز ہے کہ میں نے کاملاہیرس کو چنا ہے، کاملا ہیرس بے خوف اور خدمت گار سیاستدان ہیں۔
55 سینیٹر کاملا ہیرس کا تعلق کیلی فورنیا کے شہر اوک لینڈ سے ہے، وہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی خواہش مند تھیں مگر دسمبر میں ہی دوڑ سے باہر ہو گئی تھیں۔
ایک مباحثے میں کاملا ہیرس نے نسل پرستانہ بنیادوں پر تفریق کرنے والے سینیٹرز کی تعریف پر جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
جو بائیڈن کا مقابلہ دوبارہ صدارت کے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گا جب کہ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے نائب صدارت کے دوبارہ امیدوار مائیک پنس اور کاملا ہیرس آمنے سامنے ہوں گے۔
جو بائیڈن کا کہنا ہےکہ انہوں نے اپنے بیٹے اور کاملا ہیرس کو بڑے بینکوں سے لڑتے، لوگوں کی زندگیاں بہتر بناتے، خواتین اور بچوں کو استحصال سے بچاتے دیکھا ہے، ان پر کل بھی فخر تھا اور آج بھی فخر ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ کاملا ہیرس کی والدہ شیاملا کا تعلق بھارت سے ہے، وہ 1960 کے عشرے میں امریکا منتقل ہوئی تھیں اور کینسر کی تحقیق سے وابستہ سائنس دان تھیں۔
کاملا کے والد ڈونلڈ ہیرس کا تعلق جمیکا سے ہے، وہ بھی 1960 ہی کےعشرے میں امریکا منتقل ہوئے اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر ہیں۔
دوسری جانب کاملا ہیرس کے انتخاب پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ جوبائیڈن کا کھوکھلا وجود بائیں بازو کے انتہاپسندوں کے ایجنڈے سے بھرا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ جوبائیڈن کو ڈیموکریٹ جماعت کے پرانے امیدواروں کی نسبت ایک کمزور امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران یہ بھی کہا کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کاملا نے بائیڈن کو نسل پرست کہا تھا، کاملا نے بائیڈن سے جو معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا، آج تک پورا نہیں ہوا۔