مشہور کہاوت ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔ انیٹ لارو اپنی تحقیق میں اس بات کو مزید تقویت دیتی نظر آتی ہیں۔
شمولیتی کردار سازی ان کا متعارف کردہ ایک پرورش کا انداز ہے، جس میں والدین اپنے بچوں میں موجود صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے مختلف قسم کی منظم سرگرمیاں ان کی زندگی میں شامل کرتے ہیں۔ ہمارے دیسی اندازِ پرورش میں والدین انیٹ لارو کی تھیوری کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے اور بچے کی صلاحیتوں سے بھی قطع نظر اپنی خواہشات کے تناظر میں بچے کے کیرئیر کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس کی ذہن سازی شروع کر دیتے ہیں۔ میرا بیٹا تو بڑا ہوکے ڈاکٹر ہی بنے گا اس کے علاوہ انجینئر یا وڈا افسر بننے کی خواہش بھی ظاہر کی جاتی ہے۔ یعنی پچھلی کئی نسلوں نے تعلیم کے حصول کا واحد مقصد کسی کا نوکر بننے کی صلاحیت حاصل کرنا طے کر لیا ہے۔ اس صورت حال میں پرورش پانے والا بچہ ذہنی طور پر اپنے تمام معاشی مسائل کا صرف ایک ہی حل جانتا ہے اور وہ یہ کہ ہر ماہ اس کے ہاتھ میں ایک مقررہ رقم آ جایا کرے۔ ہر نوجوان کا خواب ایک پرکشش نوکری ہے، جس کے حصول کے لیے تمام وسائل، پورا بچپن اور جوانی لگا دی جاتی ہے۔
متوسط اور غریب طبقے کی زندگی کا مقصد معاشی حالات کی بہتری ہی رہ جاتا ہے۔ مگر ایسا کم ہی ہوا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے کبھی نوکری سے ہٹ کے بھی کوئی راستہ سوچا جائے کیونکہ سوچوں کا دائرہ تو بچپن میں ہی محدود کر دیا گیا تھا۔ لہذہ امکانات پر غور اور محدود وسائل کے استعمال کا کوئی اچھوتا خیال کسی نوجوان کو چھو کر بھی نہیں گزرتا۔ کاروبار بھی صرف انہی خاندانوں کی میراث ٹھہرا، جو نسل در نسل کاروبار کرتے آرہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں پنپنے والی اس سوچ کا زبردست نقصان یہ ہوا کہ کاروباری دنیا نئے آئیڈیاز، نئی جدت پسند سوچ اور جوان نسل جوشیلے خون کی سپلائی سے محروم ہی رہی اور ایک جمود کا شکار ہوتی گئی۔ کاروباری دنیا میں نت نئے انداز ہی اس کی چہل پہل اور رونق کا ضامن ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کاروبار میں قسمت آزمائی سے زیادہ نوکر بننے کو ترجیح دینا ہی ہماری ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔
ہماری روزمرہ کی زندگی میں ایسی بہت سی اشیاء شامل ہیں، جنہیں نہ صرف ہم لازماﹰ استعمال کرتے ہیں بلکہ ان کے بغیر ہمارا دن ہی نہیں گزرتا۔ اب وہ چاہے اسمارٹ فون ہو جوکہ بیڈروم سے لےکر میٹینگ روم تک ہمارے وجود کے کسی حصے کی طرح ہمارا جزوبدن بن چکا ہے یا پھر ہمارے روزمرہ استعمال میں رہنے والی بے شمار اشیاء، جن میں شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، پرفیوم، ریسٹ واچ اور جوتوں سے لے کر کچن میں استعمال کئے جانے والے برتنوں تک برانڈز کی ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن کیا ہم اس فہرست سے ایک بھی ایسا پاکستانی برانڈ بتا سکتے ہیں جو پوری دنیا میں ایڈیڈاس یا نائکی کی طرح جانا پہچانا جاتا ہو؟
یقیناً ہر کاروبار اپنے آغاز سے پہلے محض ایک خیال سے ہی جنم لیتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے روح رواں کے خون جگر سے پرورش پاتا ہوا ترقی کی اگلی منازل طے کرتا جاتا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک چھوٹے سے کمرے سے آغاز کرنے والی کمپنی گوگل آج آئی ٹی کی دنیا پر راج کر رہی ہے۔ ایسی طرح محض ایک خیال نے جب حقیقت کا روپ دھارا تو فیس بک یا ایپل جیسی کمپنیاں کاروباری دنیا کے افق پر جگمگائیں۔ جن کی بنیاد رکھتے وقت کوئی خاطرخواہ وسائل دستیاب نہیں تھے۔
مگر محنت، لگن اور آگے بڑھنے کی چاہ نے اگلی منزلوں تک رسائی کو ممکن بنایا۔ یہ ایک طےشدہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی منصوبہ اپنے آغاز سے ہی عالم گیر شہرت نہیں پاتا بلکہ مسلسل اور انتھک جدوجہد، لگاتار کوششیں بلآخر کسی بھی کاروبار کو اس مقام تک پہنچاتی ہیں، جہاں دنیا والے معترف ہوجاتے ہیں۔ ہماری ذرخیز مٹی نے کئی پھولوں کو تناور درخت بنایا، جن کی مہک پوری دنیا تک پہنچی۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے پاکستانی آج تک کوئی ایسا برانڈ متعارف نا کرا سکے، جو عالمی منڈی میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ پاتا۔ کیونکہ بہرحال ہر بزنس مین ملک کی سرحدوں سے باہر تک شہرت کے خواب تو دیکھتا ہی ہے۔
گوگل فیسبک یا یوٹیوب کے لیے تو یہ جواز بنتا ہے کہ آئی ٹی سے تعلق کی بنیاد پر راتوں رات شہرت مقدر بنی۔ دیگر روز مرہ استعمال کی جانے والی اشیاء سے متعلق کاروبار اپنے ملک کی مارکیٹ میں کامیابی کے بعد سرحدوں سے باہر کا سفر شروع کر دیتے ہیں، جس میں یقیناً وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے آغاز سے آج تک عالمی منڈی میں کوئی ایسا مقام کیوں حاصل نہ کر سکا۔ جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں نا باصلاحیت لوگوں کی کمی ہے اور نا خام مال اور نہ وسائل کی۔
اس صورتحال کی بنیادی وجہ جو کہ اسی معاشرے کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے مجھے نظر آتی ہے وہ تو یہی ہے کہ کاروبار کرنے کا رجحان صرف ان ہی خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گیا جو پچھلی کئی نسلوں سے کسی نہ کسی صورت کاروباری دنیا سے منسلک ہیں۔ دوسری بڑی وجہ جو نظر آتی ہے وہ ہمارے تعلیمی ڈھانچے کی خرابی ہے، جس کی بنا پر ہمارے نوجوانوں کی ایسی تربیت سازی نہیں ہو پاتی کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو اپنے بل بوتے پر استعمال کریں۔ جامعات اکثر و بیشتر کوئی ہنر سکھائے بغیر صرف کتابی علم اور ڈگری تھما کر طالب علم کو زندگی کی جنگ لڑنے کے لیے میدان میں اتار دیا جاتا ہے۔ بچپن ہی سے گھروں کی تربیت بھی انہیں صرف ایک نوکری کے حصول کی طرف راغب کرتی ہے اس کے نتیجے میں ہمارا بچہ شروع سے ہی نوکر بننے کی تربیت پا کر بڑا ہوتا ہے۔
آج کی تاریخ میں اگر پاکستانی نوجوان تجارت کے میدان میں کودنے سے ہراساں ہیں تو اس میں گھریلو ماحول، تربیت اور تعلیمی ڈھانچے کی خرابی کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیاں بھی ذمہ دار ہیں۔ چھوٹے کاروباری طبقے کو اس طرح سے سہولیات نہیں دی گئیں جیسا کہ ایک ترقی پذیر ملک صنعتی طاقت بننے کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے نوجوان کاروباری مہارت نہ ہونے کی وجہ سے بھی کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کر پاتے۔
پاکستان کا انٹرنیشنل برانڈز کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملازمین کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی کمپنی کی بڑھوتری میں اس کے ملازمین ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کو آنے والے وقت کے چیلنجز کے لیے تیار کرنا ضروری ہے۔
مارکیٹ ریسرچ کا نا ہونا، ملازمین کی ممکنہ حوصلہ افزائی کا فقدان، کاروبار میں نئی تبدیلیوں کو متعارف نا کروانا، نئے باصلاحیت افراد کو مواقع دے کر ان کے جدت پسند آئیڈیاز سے فائدہ نا اٹھانا اور پشہ وارانہ رویے کا فقدان ایسے عناصر ہیں، جو کسی بھی پاکستانی کمپنی کو اس کے آغاز میں ہی کمزور کر دیتے ہیں۔
مہمان بلاگ – طاہرہ سید –