چین نے ایک بار پھر مشرق بعید کے ممالک میں تقسیم پیدا کرنے کی کوششوں پر امریکہ کی سرزنش کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ اپنی ایسی تمام کوششوں میں ناکام رہے گا۔ امریکی نائب صدر کملا ہیرس ویتنام کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے اپنے بیان میں مقامی حکومت کو چین پر دباؤ بڑھانے کا کہا، بیان سامنے آتے ہی چینی ذرائع ابلاغ میں خطے کے امن کو لے کر بحث جاری ہے اور چین نے علاقائی ممالک کو امریکہ کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے اور علاقائی امن کو تباہ کرنے کی مغربی کوششوں کو سمجھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
کملا ہیرس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہمیں چین پر مسلسل دباؤ بنائے رکھنا ہے اور اسے سمندر کے حوالے سے عالمی قوانین کا پابند بنانا ہے، چین یوں سمندری حدود کے دعوے اور تجارتی راہداریوں پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ کملا ہیرس نے یہ سازشی بیان ویتنامی صدر نیگویین کسوآن کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں دیا ہے۔
امریکی نائب صدر نے ویتنام کو تذویراتی تعلقات کی پیشکش کرتے ہوئے ایک امریکی بحری بیڑہ تک دینے کی پیشکش کی ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ گزشتہ کچھ عرصے سے گشت کی آزادی کے نام پر بحیرہ جنوبی چین میں مٹر گشتی کر رہا ہے جس سے علاقے میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ روس اور چین مسلسل امریکہ پر سمندری حدود کی خلاف ورزیاں کرنے کا الزام لگا رہے ہیں لیکن امریکہ نہ صرف یہ کہ طاقت کے بل بوتے پر ان خلاف ورزیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ علاقے کے دیگر ممالک کو امداد ور دیگر لالچ دے کر خطے میں اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔
ویتنام دورے سے قبل کملا ہیرس سنگاپور میں چین پر غیر قانونی دعوے سے لے کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی لگا چکی ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ دراصل دنیا کی توجہ افغانستان میں پیدا کردہ خانہ جنگی سے ہٹانا چاہتا ہے۔ چینی عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ یک طرفہ طور پر کسی ملک پر چڑھائی کرتا ہے اور پھر بغیر عالمی قوانین اور علاقائی مشاورت اس ملک کو آگ میں چھوڑ کر بھاگ رہا ہے، لیکن دوسری طرف چین کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ امریکہ کا یہ عالمی قانون نہیں چل سکتا۔
چیی اخبارات اور میڈیا نے بھی افغانستان کے حوالے سے امریکی ناکامیوں کا خوب چرچا کیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ ایسا کوئی کھیل مشرق بعید میں نہیں کھیل سکتا، علاقائی ممالک امریکی روش سے بخوبی واقف ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی نائب صدر کے دورے سے قبل امریکی میڈیا میں ویتنام کے دارالحکومت میں ایک نئی وباء کے پھیلنے کی خبریں چلائی گئیں، جن سے بظاہر مقامی حکومتوں کو دباؤ میں لایا گیا۔