معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دھتی رائے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہےاور مودی حکومت اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
بھارتی مصنفہ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس وقت کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بھارت میں وبائی مرض کی آڑ میں صورت حال میں جوکشیدگی پیدا ہو رہی ہے اس میں پوری دنیا کو بھارت کے بدلتے حالات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی مصنفہ نے کہا کہ وبا کی آڑ میں بھارتی حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ وکلا، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں۔گرفتار افراد میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جا چکا ہے۔ بھارت میں اصل امتحان نفرت اور بھوک کا ہے۔
اس سے قبل ایک امریکی اخبار نے بھی لکھا کہ اتر پردیش میں مسلمان سبزی فروشوں کو شکایت ہے کہ آر ایس ایس کے انتہا پسند لوگوں کو ان سے خریداری نہیں کرنے دیتے بلکہ افواہ پھیلاتے ہیں کہ مسلمان کورونا وائرس پھیلاتے ہیں۔نئی دہلی میں دودھ بیچنے والے مسلمان دکاندار محمد حیدر کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو ہر طرف سے خوف نے گھیر رکھا ہے، ہندو انتہا پسند معمولی باتوں کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں۔
معروف بھارتی سماجی کارکن کویتا کرشنان نے بھارتی میڈیا اینکروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے صفحوں میں ان لوگوں کو نفرت پھیلانے والا لکھا جائے گا۔ کورونا کو مذہب سے جوڑنا شرمناک ہے۔