ایرانی حمایت یافتہ یمن کی حوثی ملیشیا کے جنگجوؤں نے اتوار کے روز دارالحکومت صنعاء میں سابق وزیر ثقافت خالد الرویشان کے گھر پر دھاوا بولا اور انھیں اغوا کرکے ساتھ لے گئے ان کے بیٹے وداح الرویشان نے فیس بُک پر ایک پوسٹ میں ان کے اغوا کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حوثی جنگجو خالد الرویشان کو طلوع آفتاب کے بعد اغوا کرکے ساتھ لے گئے ہیں۔ حوثیوں نے سابق وزیر ثقافت کو یرغمال بنانے سے کئی روز قبل ان کے خلاف ایک میڈیا مہم برپا کی تھی اور ان کے حوثی ملیشیا کے خلاف بیانات کی مذمت کی تھی۔
یاد رہے کہ خالد الرویشان وہ یمن کے معروف لکھاری اور شاعر بھی ہیں۔وہ حوثی ملیشیا کے شدید ناقد ہیں اور اس مسلح گروپ کی کارستانیوں کے خلاف لکھتے رہے ہیں۔ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی 2015ء سے یمن کی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت اور عرب اتحاد کے خلاف ملک پر قبضے کے لیے لڑرہے ہیں۔
یمن کے وزیر اطلاعات معمرالاریانی نے اپنے سرکاری ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک بیان میں سابق وزیر ثقافت اور شوریٰ کونسل کے رکن خالد الرویشان کی ایران کی آلہ کار حوثی ملیشیا کے ہاتھوں اغوا کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’’اس گروپ نے جس متشدد انداز میں ملک کی عظیم قومی شخصیت ، ادیب اور شاعر کو اغوا کیا ہے،اس سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ اس گروپ کو انسانی اقدار اور اخلاق کا کوئی پاس نہیں ہے۔‘‘
معمرالاریانی نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اغوا کے اس جرم کی مذمت کرے ۔انھوں نے حوثی ملیشیا سے اس کے زیر حراست تمام افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ یمنی حکومت حوثی ملیشیا پر بار بار یہ زور دے رہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ کرے تاکہ جیلوں میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔