مودی سرکار کی طرف سے متعارف کرائے گئے کالے متنازع شہریت قانون کے خلاف بھارت کی تین ریاستوں، کیرالہ، راجستھان اور پنجاب، کے بعد مغربی بنگال کی اسمبلی نے بھی قرار داد منظور کر لی ہے۔قرارداد میں وفاقی حکومت سے متنازع قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ متنازع شہریت ترمیم قانون کے خلاف قرارداد منظور کرنے والی مغربی بنگال کی اسمبلی بھارت کی چوتھی اسمبلی بن گئی ہے تاہم مودی سرکار روایتی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنر جی نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں شہریت بل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت مذہبی منافرت پر مشتمل ایسے کسی بھی قانون پر عملدرآمد نہیں کرے گی جس سے بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار ہوتا ہو۔ متنازع شہریت ترمیمی قانون انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف یورپی پارلیمان میں پیش ہونے والی قراردادوں پر رواں ہفتے بحث کے بعد ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہ قراردادیں ارکان کی اکثریت نے پارلیمنٹ میں پیش کی ہیں۔
یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس کے ایجنڈا کے مطابق اجلاس 29 جنوری کو بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہو گا۔ اجلاس میں پارلیمنٹ کے تمام ارکان شرکت کریں گے اور چھ قراردادوں پر بحث کی جائے گی جبکہ 30 جنوری کو ووٹ ڈالیں جائیں گے۔ قراردادیں منظور ہو جانے کے بعد انہیں بھارتی حکومت، پارلیمان اور یورپی کمیشن کے سربراہان کو بھیجی جائیں گی۔اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق پہلے یورپی کمیشن کے نائب صدر جوسیپ بوریل بھارت کے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 پر بیان دیں گے۔
یورپی یونین میں جمع کرائی گئی قرارداد کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں شہریت کا تعین کرنے کے طریقے میں انتہائی خطرناک طور پر تبدیلی کی گئی ہے۔ لوگوں کے خدشات کو دور کرنے اور اصلاحات کی بجائے حکومت کے متعدد رہنما مظاہرین کو بدنام کرنے، ان کی تذلیل کرنے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوششوں میں مصروف ہیں
خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل یورپی یونین کے ڈیڑھ سو سے زیادہ قانون سازوں نے جموں و کشمیر کی صوررت حال سے نمٹنے میں ہندو قوم پرست جماعت کے طریقہ کار پر بھی سخت نکتہ چینی کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی طرح کے تجارتی معاہدے سے قبل انسانی حقوق کے حوالے سے سخت ضابطے اور ان کے نفاذ کے لیے موثر میکانزم طے کیے جائیں۔
جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے بھی گزشتہ برس بھارت کے دورے کے دوران کشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ یر پائیدار اور چھے نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع بل کو منظور کرتے ہوئے ایک قانون بنایا گیا تھا جس میں پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، مسیحی، جین، پارسی، بدھوں کو شہریت دی جائے گی جبکہ اس فہرست میں مسلمان شامل نہیں تھے۔