چین اور شام کی جانب سے باہمی تعلقات کو تذویراتی سطح پر لے جانے کا اعلان سامنے آیا ہے۔ چین کے شہر ہینگزو میں صدر شی جن پنگ اور شامی صدر کی ملاقات کے بعد دونوں ایشیائی ممالک نے تعلقات کو نئی نہج پر لے جانے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔
یہ شامی صدر کا 2004 کے بعد چین کا پہلا دورہ تھا۔ اس موقع پر مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے دونوں ممالک کے تعلقات نے تاریخ میں خود کو ثابت کیا ہے، اور ہر طرح کے مشکل حالات کے باوجود ان پر گزند نہیں آئی۔
واضح رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی 2011 میں خانہ جنگی کے بعد بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے تھے، شامی صدر پر الزام تھا کہ انہوں نے مخالفین کو دبانے کے لیے جنگی جرائم کیے حتیٰ کہ کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ تاہم معاملات سنی جہادی گروہوں کے ہاتھ جاتے ہی مغربی اتحادیوں نے صدربشار کو ہٹانے کا منصوبہ ترک کر دیا اور اپنے پیدا کردہ مغرب نواز لبرل گروہ کی حمایت بھی ترک کر دی تھی۔ جس پر بشارالاسد نے روس سے مدد طلب کی اور 2015 سے روسی مدد سے جہادی گروہوں کے خلاف شامی صدر اقتدار پر قائم ہیں۔ شام کا ترکی کے ساتھ سرحدی علاقہ اس وقت ترک افواج کے زیرانتظام ہے جس میں امریکی دستہ بھی ترک افواج کا معاون ہے۔ شام اس وقت مختلف ممالک کے زیر انتظام ہے، یہی وجہ ہے کہ بشار الاسد کو اکثر دمشق کا صدر کہہ کر طنز بھی کیا جاتا ہے۔
چین نے شام کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے اور نئے تذویراتی معاہدے کے بعد ملک کی تعمیر نو کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ واضح رہے کہ چین نے شام کو عرب ممالک کے اتحاد میں واپس داخلے میں بھی مدد فراہم کی ہے، اس کے علاوہ خطے کی سیاست میں ایران اور سعودیہ کے مابین کشیدگی ختم کروا کر بڑی سفارتی کامیابی بھی حاصل کر چکا ہے۔