ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل پر تبصرے اور اس کے ردعمل میں کارروائی اب تک زیر بحث ہے۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں خفیہ ادارے کے سربراہ جان برینن نے اسے مجرمانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے خطرناک اقدام قرار دیا ہے تو سابق موساد سربراہ افراہیم حلوے نے اسے مجرمانہ ماننے سے انکار کر دیا ہے، اور کہا ہے کہ امریکہ ہمیشہ سے ملکی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ بننے والے افراد کا قتل کرواتا رہا ہے۔
امریکی اہلکار نے امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے والے مخالفین پر تبصرے میں کہا کہ دہشت گردوں کے قائدین اور معاونین کی ہلاکت اور ایرانی سائنسدان کی ہلاکت مختلف چیزیں ہیں، جس پر قابض صیہونی انتظامیہ کے سابق اہلکار نے کہا کہ فخری زادے قطعاً دہشت گردوں کے معاونین سے مختلف نہیں تھا، وہ ویسے ہی ایرانی پاسدران انقلاب فوج کا اعلیٰ عہدے دار تھا جیسے قاسم سلیمانی تھا، لہٰذا اسکے قتل کو بطور جرم دیکھنا غلط ہے۔
رشیا ٹوڈے پر جاری گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے ایک ایرانی تحقیقی ادارے کے سربراہ نے کہا کہ اگر قابض صیہونی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ ایران اپنے سائنسدان کے قتل پر ردعمل نہیں دے گا تو وہ ایران کو نہیں جانتے، ایسے اقدامات ایران کو مشرق وسطیٰ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے سے نہیں روک سکتے۔