چین نے بحیرہ جنوبی چین میں امریکی جنگی جہازوں کے گشت پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی بحری جہازوں نے گزشتہ سال 13 بار سمندری حدود کی خلاف ورزی کی۔ میڈیا سے گفتگو میں ترجمان دفتر خارجہ وینگ وین بن کا مزید کہنا تھا کہ امریکی اقدام اشتعال انگیزی پر مبنی ہیں، جو کسی بھی وقت دونوں ممالک میں جاری کشیدگی میں جلتی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
چینی ترجمان نے میڈیا سے گفتگو میں امریکہ پر تائیوان کو اکسانے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ امریکہ خطے میں امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے، لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ چین کمزور ہے، چینی فوج قومی مفاد کی حفاظت کے لیے ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ میک کین نامی امریکی بحری جنگی جہاز معمول کے کشت پر تائیوان کے پانیوں سے گزرتا ہے، اور امریکہ اسے چینی حدود تسلیم نہیں کرتا۔ امریکہ کو بین الاقوامی پانیوں میں نقل و حرکت کی اجازت عالمی قانون دیتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ نے بروز پیر تائیوان اور تبت سے متعلق متنازعہ قوانین منظور کیے ہیں، جبکہ ہانگ کانگ سے فرار 12 سیاسی رہنماؤں کی آزادی کا مطالبہ بھی کیا ہے جنہیں چین نے خطے میں بدامنی پھیلانے کے جرم میں نظر بند کر رکھا تھا لیکن انہوں نے تائیوان فرار ہونے کی کوشش کی، جس دوران چینی حکومت نے انہیں دھڑ لیا۔
چین کا کہنا ہے کہ امریکہ چین کے اندرونی معاملات میں بےجا مداخلت کر رہا ہے، رویے کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے امریکی جہاز کی جانب سے چینی سمندری حدود کی خلاف ورزی پر چین نے ردعمل میں خصوصی بحری بیڑہ روانہ کیا جس پر امریکہ نے فوری جنگی جہاز کو پیچھے ہٹا لیا لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق امریکہ اب تائیوان کو جدید میزائل اور جنگی سازوسامان فراہم کر رہا ہے، جس پر چین نے سخت ردعمل میں امریکہ کو اشتعال انگیزی سے باز رہنے کی تنبیہ کی ہے۔
یاد رہے کہ چین تائیوان کو چین کا حصہ کہتا ہے اور اسکا مؤقف ہے کہ ایک دن یہ جزیرہ بھی واپس چین کا حصہ بن جائے گا، تاہم امریکہ اور دوسری مغربی ریاستیں تائیوان کو چین کے خلاف ابھارتے اور خطے میں چینی مفادات کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور ان کوششوں میں چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔