اقوام متحدہ کے شعبہ آزادی صحافت کے اعلیٰ عہدے دار نے جنوبی کوریا کی جانب سے جعلی خبروں کے خلاف اٹھائے اقدام پر کڑی تنقید کی ہے، ارینی خان کا کہنا ہے کہ اس قانون سے صحافی آواز بندی کا شکار ہو جائیں گے، شعبہ صحافت متاثر ہوگا۔
اقوام متحدہ کی نمائندہ نے جنوبی کوریا کی حکومت کو خصوصی خط میں آزادی رائے اور صحافت کی حفاظت کو یقینی بنانے پر زور دیا اور پارلیمنٹ میں زیر بحث قانونی مسودے پر نظر ثانی کا کہا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ قانون معلومات تک رسائی اور آزادی صحافت کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ عالمی انسانی حقوق کے تحت غلط معلومات کو روکنا قانون سازی کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس سے صحافیوں کی آواز بندی ہو گی، جنوبی کوریا کی حکومت 1954 میں جاری اقوام متحدہ کے عوامی اور سیاسی حقوق کے چارٹر کا پابند رہے، جس پر 1990 میں جنوبی کوریا نے بھی دستخط کیے۔
قانونی مسودہ حکومتی جماعت کوریا ڈیموکریٹ جماعت نے جمع کروایا جس میں ذرائع ابلاغ کے اداروں کو کسی قسم کی غلط معلومات نشر کرنے یا کوتاہی کا مجرم ثابت ہونے پر سزا دی جا سکے گی۔ جماعت کے قائدین کا مؤقف ہے کہ قانون کا مقصد عوام کو غلط معلومات کے اثر سے بچانا اور انفرادی حقوق کو تحفظ دینا ہے۔ مسودہ رواں ہفتے کے آغاز میں اسمبلی میں پیش ہونا تھا لیکن اب اسے 27 ستمبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ مسودے کے خلاف حزب اختلاف اور عالمی نشریاتی تنظیموں کی طرف سے سخت مزاحمت سامنے آرہی ہے۔
مقامی صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قانون آزادی رائے کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، لہٰذا اسکی منظوری کو ہر صورت روکیں گے۔جبکہ بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قانون مقامی صحافیوں کو ہمیشہ خوف کی فضاء میں رکھے گا اور وہ آزادانہ طور پر اپنا کام نہیں کر سکیں گے۔