ترک صدر رجب طیب اردوگان اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن کے درمیان روس کے دارالحکومت ماسکو میں طویل ملاقات ہوئی جو 6 گھنٹے تک جاری رہی۔ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوگان نے شام کے تشدد زدہ صوبے ادلب میں سیز فائر کا اعلان کیا اورساتھ ہی شامی حکومت کو خبردار کیا کہ اگرترک فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تو ترکی پوری طاقت کے ساتھ جوابی کارروائی کرے گا۔
اس موقع پر روسی صدر پوتن کا کہنا تھا کہ روس اپنے ترک شراکت داروں کی پالیسیوں کے ساتھ مسلسل غیر رضا مند تھا لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ ادلب کے پر امن علاقے میں لڑائی کے خاتمے کے لیے بہتر بنیاد ثابت ہوگا اورعوام کی مشکلات کے خاتمے سمیت بڑھتے ہوئے انسانی بحران کو بھی کم کرے گا۔
ترک اور روسی صدور کی پریس کانفرنس کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ محفوظ راستے کو شمال اور جنوب کی طرف 6،6 کلو میٹر تک توسیع دی جائے گی اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے وزرائے دفاع ایک ہفتے میں پیرامیٹرز پر اتفاق کریں گے۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ دونوں رہنما مہاجرین کی ان کے گھروں کو واپسی میں مدد کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب ترکی کی سرکاری خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ ادلب میں سیز فائر کے اعلان کے بعد جمعہ کو ترک فورسز نے گزشتہ روز دو فوجیوں کی ہلاکت کے جواب میں شامی افواج پر دو میزائل فائر کیے جس سے 21 شامی فوجی ہلاک ہوگئے۔
واضح رہےکہ گزشتہ سال دسمبر سے ادلب کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شامی افواج کے حملے جاری ہیں، صوبے میں جاری لڑائی سے تقریباً 300 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جب کہ صوبے میں ترکی کے ساتھ ملنے والی سرحد پر تقریباً 10 لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ادلب بشارالاسد حکومت کے مخالف شامی عسکریت پسند اپوزیشن اتحاد کا آخری مضبوط گڑھ ہے، اس اتحاد کو امریکہ، ترکی اور خلیجی ممالک کی مدد حاصل رہی ہے جب کہ شامی افواج روس اور ایران کے ساتھ مل کر ادلب پر 8 سالہ قبضہ ختم کرنے کے لیے اِن دنوں بھر پور کوششیں کررہی ہے۔