Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

امریکی حزب اختلاف کے سینیٹرزکا ٹرمپ کی مالیاتی معلومات کے لیے ڈؤئچے بینک کے چیف ایگزیکیٹو کو خط : بینک کا معلومات دینے سے انکار

امریکی حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی کے چار سینیٹرز نے سات اپریل کوڈؤئچے بینک کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر کو خط لکھ کر صدر ٹرمپ کے کاروباری لین دین سے متعلق تفصیلات مانگی تھیں۔امریکی سینیٹرز کے مطابق اس خط کا مقصد یہ جاننا تھا کہ بینک سے صدر ٹرمپ کو کون سے ذاتی فائدے ملتے رہے ہیں اور جواب میں ٹرمپ حکومت بینک کو کس قسم کی سہولیات دیتی رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق ان ڈیموکریٹک سینیٹرز میں رچرڈ بلومنتھال، شیروڈ براؤن، کرس فان ہولن اور ایلزبتھ وارن شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ کے کاروبار اور پراپرٹی میں ڈوئچے بینک کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ کورونا کے بحران کے دوران بینک نے صدر ٹرمپ کو قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے ترجیحی سہولیات دی ہیں۔

لیکن اطلاعات کے مطابق ڈوئچے بینک نے قانونی مجبوریوں کا جواز دے کر ان کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

خبر رساں ادوارں روئٹرز اور بلومبرگ کے مطابق، اکیس اپریل کو اپنے جواب میں بینک نے کہا، ”ہمیں امید ہے کہ آپ اس طرح کی خفیہ معلومات کے حوالے سے ڈوئچے بینک کی قانونی مجبوریوں کو سمجھ سکتے ہیں۔‘‘اپنے جواب میں بینک نے یہ بھی واضح کیا کہ اس طرح کی درخواست انفرادی اراکان کی طرف سے دیے جانے اور کانگریس کے قوانین کے تحت با اختیار کمیٹیوں کے طرف سے دیے جانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

روئٹرز کو دیے گئے ایک بیان میں سینیٹر فان ہولن نے بینک کی طرف سے عدم تعاون کے جواب کو ‘ناکافی اور غیرذمہ دارنہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ”امریکی عوام جواب چاہتے ہیں اور اس سے کم کچھ بھی قابل قبول نہیں۔‘‘

واضح رہے کہ ڈوئچے بینک پہلے ہی امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے زیر تفتیش ہے۔

اگلے ماہ امریکی سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اس سوال پر بحث متوقع ہے کہ آیا کانگریس کی طاقتور کمیٹیاں بینک کو مجبور کر سکتی ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کے مالی معامالات کی تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کریں۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

thirteen − 5 =

Contact Us