کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پادری فرانسس کی جانب سے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کیتھولک کلیسے کے سربراہ نے اپنے گردشی خط میں فلسفہِ آزاد مارکیٹ، نجی املاک، نسل/قوم پرستی اور سماجی ناہمواریوں کو سخت تنیقد کا نشانہ بنایا ہے۔
خط میں پادری فرانسس کا کہنا ہے کہ کووڈ19 وباء نے ثابت کر دیا ہے کہ صرف بازاروں تک آزاد رسائی کی پالیسی سماجی فوائد کا باعث نہیں بن سکی، جیسا کہ اس کے پرچارک نیو لبرلزم کا یہ عقیدہ ہم پر مسلط کرنے کے لیے ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔
بھائیوتمام نامی گردشی خط میں کیتھولک پادری کا کہنا ہے کہ معاشی خوشحالی کے فوائد کے نیچے تک جانے کا دعویٰ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا، نہ تو معاشی ناہمواریاں ختم ہوئی ہیں اور نہ معاشرتی، بلکہ انسانی معاشرہ انتشار اور تشدد میں مزید گر گیا ہے۔ پادری فرانسس کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسی معاشی فکر کو اپنانا چاہیے جس سے پیداواری تغیر اور نئے کاروبار پیدا ہوں، تاکہ انسان معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مشکل کا شکار نہ ہوں۔
پادری فرانسس کا کہنا ہے کہ وباء نے موجودہ عالمی نظام کی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے، تمام ممالک کو مالیاتی جھانسوں سے نکل کر درست اور طاقتور سیاسی ڈھانچے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ہمیں دوبارہ انسانی اقدار کو مرکزیت دینا ہو گی، تاکہ ہمیں مطلوب سماجی ڈھانچہ بنایا جا سکے۔
موجودہ جابرانہ معاشی نظام نیو لبرل عقیدے کے طور پر انسانیت پر مسلط کیا گیا: پادری فرانسس
دوسری طرف توجہ طلب نقطہ یہ بھی ہے کہ پادری فرانسس کی نجی املاک پر تنقید بائیں بازو کی سوچ سے مطابقت رکھتی ہے۔ بادری فرانسس نے دعویٰ کیا ہے کہ عیسائی روایات میں نجی املاک کا فلسفہ موجودہ صورت میں کبھی نہیں رہا، بلکہ نجی املاک بھی کسی سماجی ضرورت کے تحت عمل میں لائی جاتی تھی۔ نجی املاک کا حق بنیادی حق نہیں بلکہ ثانوی حیثیت کا مالک ہے۔ جس میں قدرتی وسائل پہ تمام بنی نوع انسان کا حق تسلیم کیا جاتا ہے، کہ سب اسے منصفانہ طرز پر استعمال کر سکیں۔
پادری فرانسس نے قومیت کے نعرے تلے پروان چڑھنے والی سیاسی رہنماؤں کی مقبولیت، جنگوں، سماجی ابلاغ کی تفرقہ بازیوں، پھانسی کی سزا اور سماجی ناہمواریوں پر بھی تنقید کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہجرت کے بارے میں اپنے افکار کی دوبارہ ترویج کی ہے اور اسے انسانی تہذیب کے لیے فائدہ مند قرار دیا ہے۔
خط میں پادری فرانسس نے نسل پرستی کو انتہائی تیزی سے بڑھنے والا اور خطرے کی صورت میں چھپ جانے والا وائرس قرار دیا ہے۔ نسلی تعصب کے حل کے لیے پادری فرانسس کا کہنا ہے کہ انسانوں کو ایسے معاشرے پروان چڑھانے چاہیے جس میں بلا کسی تفریق کے نئے انسانوں کو شامل کرنے کی گنجائش موجود ہو۔
پادری فرانسس نے معاشی و معاشرتی ضروریات پر مزید کہا ہے کہ ہماری ہر بہن اور بھائی جو کسی ضرورت میں مبتلا ہو،اور معاشرہ اسے دتکار رہا ہو، تو ایسا شخص قدرتی طور پر ایک اجنبی بن جاتا ہے، چاہے وہ اسی ملک اور معاشرے میں پیدا ہوا ہو، ایسے افراد قانون کے تحت حقوق کے مالک تو ہو سکتے ہیں، لیکن لوگوں کا رویہ انہیں اپنے ہی ملک میں غیر بنا دیتا ہے۔
پادری فرانسس کے خط پر حقوق نسواں کے نام نہاد محافظین کی جانب سے تنقید میں کہا گیا ہے کہ اس کے نام (بھائیو تمام) سے مرد کی حاکمیت کی بو آتی ہے۔ تاہم ویٹیکن نے وضاحت میں کہا ہے کہ خط کا نام اسیسی کے سینٹ فرانسس کے خط سے احذ کیا گیا ہے، اور یہ پوری دنیا سے مخاطب ہے۔ وضاحت میں مزید کہا گیا ہے کہ لاطینی زبان میں فراتیلی لفظ کا لفظی مطلب تو بھائی ہے تاہم یہ مرد و خواتین دونوں کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔