نیوزی لینڈ ان چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں مریضوں کو زہر کا ٹیکہ لگوا کا مرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے، فیصلہ عوامی رائے دہی کے ذریعے کیا گیا ہے جس پر عملدرآمد نومبر 2021 سے شروع ہو جائے گا۔
قانون کے تحت ایسے مریض جن کے بچنے کی امید کم ہو، انہیں ڈاکٹر کے مقررہ وقت سے 6 ماہ قبل زہر کا ٹیکہ لگوا کر زندگی کو ختم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، وقت کو مقرر کرنے کے لیے دو ڈاکٹروں کے خصوصی گروہ سے اجازت لی جائے گی۔
اکتوبر کی 17 کو ہونے والے عوامی ووٹ میں 65 اعشاریہ 2 فیصد عوام نے زہر سے زندگی کو ختم کرنے کے اختیار والے قانون کی توثیق کی ہے۔ قانون کے خلاف 33 اعشاریہ 8 فیصد شہریوں نے ووٹ دیا۔ واضح رہے کہ ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان آج بروز جمعہ کیا گیا ہے، جبکہ سرکاری نتائج کا اعلان نومبر کی 6 تاریخ کو کیا جائے گا، کیونکہ ابھی پانچ لاکھ سے زائد خصوصی بیلٹ کا کھلنا باقی ہے، جن میں سے زیادہ تر بیرون ملک مقیم نیوزی لینڈ کے شہریوں کے ووٹ شامل ہیں۔ تاہم فرق اس قدر زیادہ ہے کہ باقی ماندہ تمام ووٹ بھی نتائج کو بدل نہیں سکتے۔
یوں بیماروں کو اپنی زندگی زہر سے ختم کرنے والے اختیار کی قانونی اجازت دینے میں نیوزی لینڈ 7واں ملک بن گیا ہے۔ دیگر ممالک میں کینیڈا، بیلجیئم، اور امریکہ کی چند ریاستیں شامل ہیں۔
قانون کے مخالفین خصوصاً عیسائی اور دیگر مذہبی گروہوں نے نتائج پر ردعمل میں کہا ہے کہ اس سے خودکشی کے رحجان کو تقویت ملے گی، اور خاندانی نظام بھی بری طرح متاثر ہو گا، کیونکہ لوگ اہل خانہ پر خود کو بوجھ سمجھتے ہوئے زندگی کو ختم کرنے کو ترجیح دیں گے۔
واضح رہے کہ اگرچہ اب تک عمومی طور پر یہ قانون دنیا میں ظلم اور مایوسی کی علامت سمجھا جاتا ہے تاہم گزشتہ کچھ سالوں میں مغربی لبرل تہذیب کے حامل متعدد ممالک میں اسے خصوصی بحث کا مدعہ بنایا جا رہا ہے اور ابھی ایک ماہ قبل نیدرلینڈ نے خطرناک بیماریوں میں مبتلا بچوں کو بھی ڈاکٹر کے مشورے سے زہر سے مارنے کی اجازت دینے کا عندیا دیا ہے۔