لندن کے ناظم اعلیٰ صادق خان نے شہری پولیس میں 40 فیصد اہلکار سیاہ فام، ایشیا اور دیگر لسانی گروہوں سے بھرتی کرنے کا حکم دیا ہے، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اقدام سے حکومت پر نسلی تعصب کے الزامات میں کمی آئے گی۔
برطانوی نشریاتی اداروں کے مطابق منصوبے پر لمبے عرصےسے کام جاری تھا، اور آخری رائے دہی کے لیے رواں ہفتے لندن کے میئر صادق خان اور پولیس کے اعلیٰ افسر کے مابین کئی ملاقاتیں ہوئیں، اور بالآخر آج اسے عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔
اس موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں ناظم اعلیٰ صادق خان نے کہا کہ ہمارے سرکاری نظام اور معاشرے سے نسلی تعصب کو کم کرنے کے لیے ایک اہم منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے، اس سے اداروں میں موجود تعصب کو کم کرنے میں مدد ملے گی، پولیس میں ایسی بڑی اور اہم اصلاح کبھی نہیں ہوئی۔
واضح رہے کہ لندن کی 40 فیصد آبادی سفید فام نہیں ہے، یعنی ان کا تعلق سیاہ فام، ایشیائی یا دیگر لسانی گروہوں سے ہے، جبکہ پولیس میں انکی نمائندگی 15 فیصد ہے۔ 2019 میں ایک بیان میں لندن پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آبادی کی تناسب سے پولیس میں نمائندگی حاصل کرنے میں غیر سفید آبادی کو سو سال لگ سکتے ہیں۔
صادق خان کے منصوبے پر جہاں ایک حلقے کی جانب سے پذیرائی دیکھنے کو آ رہی ہے، وہاں اس کے ناقدین کی بھی کمی نہیں۔ کچھ نے منصوبے کو خود میں نسلی تعصب کہا ہے اور اس کے مثبت نتائج پر شک و شبہات کا اظہار کیا ہے، جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ بھرتیاں معیار پر ہونی چاہیے نہ کہ لسانی و نسلی بنیادوں پر۔
یاد رہے کہ لندن کی پولیس میں اصلاحات کی اس سے پہلے کئی کوششیں ناکام رہی ہیں، اور اس کے علاوہ 2013 سے ادارے میں اقلیتی لسانی گروہوں کی بھرتی میں واضح کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے باعث اقلیتوں میں تحفظات بڑھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ لندن پولیس کے خلاف اقلیتی گروہوں پر تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ مختلف تحاقیق کے مطابق پولیس سیاہ فام شہریوں کو تلاشی کے لیے سفید فام کی نسبت 6 گناء زیادہ روکتی ہے، جبکہ ایشیائی افراد پر نسلی بنیادوں پر زیادہ نظر رکھی جاتی ہے، اور انکی جاسوسی بھی نسلی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔