برطانیہ میں بڑھتی معاشی ناہمواری پر ہونے والی ایک تازی تحقیق کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی ماہرین نے حکومت کو تنبیہ جاری کی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اس ناہمواری کے سدباب کے لیے اقدامات کرے ورنہ صورتحال ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق برطانیہ کے ایک چوتھائی مکان/جائیدادیں ملک کے صرف ایک فیصد افراد کی ملکیت ہیں، یعنی ملکی آبادی کا صرف ایک فیصد مجموعی طور پر ملک کی 25 فیصد جائیدادوں کا مالک ہے، اور یہ مالیت میں تقریباً 800 ارب پاؤنڈ بنتا ہے۔ محکمہ شہری منصوبہ بندی کے مطابق یہ اعدادوشمار انتہائی محتاط ہیں، اور حقیقی صورتحال اس سے بھی زیادہ سنجیدہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری اعدادوشمار میں بہت زیادہ جائیدادوں کے مالکان کا نام تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا۔
سماجی ماہرین نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ جائیدادیں بنانے میں نظر آنے والے مالی فائدے کو کم کیا جائے، اور ان پر ٹیکسوں کو بڑھایا جائے، ماہرین نے 20 لاکھ پاؤنڈ سے زائد مالیت کی جائیداد پر 1 فیصد کونسل ٹیکس لگانے کی سفارش بھی کی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اقدام سے کووڈ-19 سے لڑنے اور بوڑھوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔
معروف برطانوی ماہر معیشت جیک لیسلی کے مطابق برطانیہ میں گزشتہ کچھ سالوں میں جائیدادوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، لوگ تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس سے کرائے اور دیگر صورتوں میں منافع کماتے ہیں، لیکن اس سے سرمائے کی ایک جگہ کھپت اور 800 ارب پاؤنڈ کا ایک فیصد آبادی کے ہاتھ میں جمے رہنے یا پیسے کے مارکیٹ میں نہ چلنے سے ملکی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔ کورونا وباء کے دوران ملک پر مالی دباؤ ہے، اور ٹیکس میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے، ایسے میں سب سے تیز بہتری جائیدادوں پر ٹیکس سے لائی جا سکتی ہے۔
برطانیہ میں سن 2008 کے معاشی بحران کے بعد سے جائیدادوں کی قیمت میں اضافے کے ذریعے دولت میں اضافے کا رحجان دیکھا جارہا ہے، گزشتہ 12 سالوں میں مکانوں/جائیدادوں کی قیمت میں 93 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دسمبر 2020 میں برطانوی کمیشن برائے اثاثہ جات نے بھی دس لاکھ پاؤنڈ سے زائد مالیت کی جائیداد کے مالکوں پر 1٪ ٹیکس لگانے کی سفارش کی تھی۔ جس میں رہائشی گھراور پینشن سے بنائی جائیداد بھی شامل کی گئی تھیں، کمیشن کا اندازہ تھا کہ اس سے 260 ارب پاؤنڈ اکٹھے کیے جا سکیں گے اور کورونا کے باعث پیش آنے والی صورتحال سے نمٹا جا سکے گا۔