چینی وزیر خارجہ وینگ ژی نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لے، اور صرف مقابلے کے رحجان سے باہر نکلے۔ چین اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے دونوں ممالک کو تعاون اور خود احتسابی کرنا ہو گی۔
قومی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں چینی اعلیٰ عہدے دار کا کہنا تھا کہ اس میں شک نہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مسائل موجود ہیں، لیکن اسکا ذمہ دار امریکہ ہے جو چین کو دبا کر دوسری سرد جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔ ایسا کرنا کسی کے مفاد میں نہیں، یہ حکمت عملی اور ٹکراؤ سب کچھ تباہ کر دے گی۔
وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کو چین کی تیزی سے ترقی ہضم نہیں ہو رہی، اور امریکہ خود کوبہتر کرنے کے بجائے چین کو نیچا دکھانے میں جت گیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا واضح کہنا تھا کہ چین ترقی پاکر امریکہ ثانی نہیں بنے گا۔
ہمیں دنیا میں ایک اور امریکہ کی ضرورت نہیں ہے، یہ نہ تو سمجھداری ہے اور نہ ہی چین جیسی تہذیب کے لیے قابل عمل چیز ہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ خود میں بہتری لائے، اور اگر ایسا ہو گیا تو چین سمیت پوری دنیا خودبخود اچھی بن جائےگی۔
وینگ ژی کا مزید کہنا تھا کہ چین نے کبھی بھی امریکہ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی، اور چین چاہتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعاون اور استحکام کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھائے۔
امریکہ میں نئی قیادت کے آنے پر چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ واشنگٹن کی پالیسی میں اب سمجھداری نظر آئے گی، اور دونوں ممالک میں تعلقات بہتری کی طرف جائیں گے۔ بائیڈن کو ماضی سے سیکھ کر تعاون کی سیاست کی طرف جانا ہو گا۔
واضح رہے کہ امریکہ چین کو سیاسی، معاشی اور عسکری میدان میں بڑے مدمقابل کے طور پر دیکھ رہا ہے، اور اس نے بحیرہ جنوبی چین میں جہاں عسکری محاذ آرائی شروع کر رکھی ہے وہیں دنیا بھر میں چینی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہانگ کانگ میں مداخلت عروج پر ہے، اور تجارتی جنگ نے دنیا بھر میں نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ امریکہ چینی ٹیکنالوجی صنعت کو نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آرہا، اور ہواوے اسکی بڑی مثال ہے۔
امریکہ اور مغربی دنیا کے عمومی ٹکراؤ کے رحجان کے باوجود برطانوی تحقیقی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق چین 2028 تک دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت ہو گا۔