مصنوعی ذہانت کے شعبے میں مغربی تہذیبی اقدار کے بڑھتے اثر اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خاص عسکری بڑھوتری کے باعث انسانی تہذیب کو خطرے میں مانا جا رہا ہے۔ خود مغربی سکالر شعبے میں ترقی کی حدود کو طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور خاص حد سے بڑھنے کی صورت میں شدید تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ایسے میں سائبر سکیورٹی کے ماہر مورگان رائٹ نے رشیا ٹوڈے سے گفتگو میں شعبے کے مستقبل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں برتری اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جنگ ہے، ممالک شعبے میں کم ازکم دشمنوں کی نسبت برتری چاہتے ہیں۔
گفتگو میں مورگان کا کہنا تھا کہ شعبے میں کام کو اس وقت دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک عمومی مصنوعی ذہانت اور دوسرا محدود مصنوعی ذہانت۔ مصنوعی ذہانت میں بنیادی طور پر مشین کو سوچنے اور دی گئی تربیت یا ہدایت کے مطابق کام کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے، مشینیں اسی تربیت کی بنیاد پر خود کار فیصلے لیتی ہیں اور انسانی ذہانت کی طرز پر کام کرتی ہیں۔
آئی ٹی ماہر کا مزید کہنا تھا کہ حکومتیں مشینوں کی اسی صلاحیت کی وجہ سے بہت طاقتور ہو جائیں گی۔ وہ ہر چیز پر نظر رکھ سکیں گی، پھر چاہے وہ عسکری مقصد کے لیے ہو یا عوامی مقصد کے لیے، ہر شعبہ زندگی ہر وقت حکومتی گروہ کے کنٹرول میں ہو گا۔ اور اگر حکومت کسی بدعنوان اور متعصب گروہ کے ہاتھوں میں ہو گی تو یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہو گی۔