آسٹریلوی حکومت اہم عہدوں پر تعینات اہلکاروں اور سیاستدانوں کے جنسی سکینڈلوں سے بری طرح ہل گئی ہے۔ جاری لہر میں پارلیمنٹ میں جنسی عمل کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد عوامی غم و غصے میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ویڈیو سکینڈل میں سامنے آیا ہے کہ ملکی پارلیمنٹ کے اندر کام کرنے والا اہم عملہ نہ صرف عمارت کے اندر ہی جنسی عمل کو معمول بنائے ہوئے ہے بلکہ اسکی فلمیں بنا کر آپس میں ایک دوسرے کو بھی بھیجتا رہتا ہے۔
آسٹریلوی میڈیا کے مطابق انہیں اندر کے ایک بندے نے درجنوں ایسی ویڈیو اور تصاویر دی ہیں جن میں عہدے دار نہ صرف آپس میں جنسی عمل کرتے دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ خواتین و مرد باہر سے جسم فروش مردوں اور عورتوں کو بھی پارلیمنٹ میں لا کر جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں۔
ویڈیو دینے والے شخص نے خود بھی پارلیمنٹ میں جنسی عمل کا اعتراف کیا ہے اور میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس کے ویڈیو سامنے لانے کا مقصد اس عمل کو روکنا ہے، اسکے خیال میں بہت ہو گیا، عوام میں تقدس کی حامل اس عمارت کو جنسی عمل کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسکا کہنا ہے کہ اسکے خیال میں پارلیمنٹ کی عمارت میں موجود عبادت کے کمرے کو عبادت کی نسبت جنسی عمل کے لیے زیادہ استعمال کیا گیا ہو گا۔
ویڈیو سامنے لانے والے بندے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایسی درجنوں ویڈیو اور تصاویر ہیں، تاہم میڈیا نے تاحال صرف 1 کو دھندلا کر کے نشر کیا ہے۔
ویڈیو سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد عوام کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکام کی جانب سے بھی شدید ناراضگی کا اظہار سامنے آیا ہے، اور متعدد وزراء نے واقعات میں ملوث عملے کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر معاشیات نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی عمارت میں جنسی عمل اس کی بےحرمتی کے مترادف ہے۔ ایک خاتون رکن پارلیمنٹ نے ردعمل میں کہا ہے کہ اس عمارت میں کام کے لیے آنے والے افراد کو گھٹیا نہیں ہونا چاہیے۔
کچھ ارکان نے پارلیمنٹ میں ایسے کسی عمل سے متعلق ناواقف ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے، تاہم مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ ملکی قانون کے مطابق تمام ارکان پارلیمنٹ اپنا عملہ خود بھرتی کرتے ہیں، اور عملہ تقریباً ہر وقت ان کے ساتھ مشغول ہوتا ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اس سب سے آگاہ نہ ہوں؟