ترکی میں 2016 میں فوجی بغاوت کے سرغنہ فتح اللہ گولین سے تعلق کے الزام میں مزید 203 فوجی اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سکیورٹی اداروں نے سائیپرس سمیت ملک کے 53 صوبوں میں کارروائی کرتے ہوئے ان فوجیوں کو گرفتار کیا ہے۔
ترک حکام نے گرفتاری کی وضاحت میں کہا ہے کہ گرفتار فوجیوں کے گولین کی تنظیم کے ساتھ رابطے پکڑے گئے تھے، جن کی مکمل تحقیقات کے بعد یک لخت کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ترکی فتح اللہ گولین کو 2016 میں فوجی بغاوت کا ذمہ دار مانتا ہے، فتح اللہ گولین عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہے، اور ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ ترک حکام امریکہ سے گولین کی واپسی کا باقائدہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں لیکن امریکہ تاحال تعاون سے انکاری ہے۔
یاد رہے کہ فوجی بغاوت میں 251 افراد ہلاک اور 2734 زخمی ہوئے تھے، جبکہ بغاوت کی ناکامی نے ترک سیاست کا رخ ہی بدل دیا تھا۔ ترک حکومت نے گولین کی تنظیم سے وابستگی کے الزام میں 80 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں سے بڑی تعداد کو بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا، البتہ ڈیڑھ لاکھ کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
واضح رہے کہ فتح اللہ گولین بظاہر ایک عالم کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور یہ ماضی میں حکمران جماعت کا حمائیتی رہا ہے۔ گولین کی تنظیم کا ترکی خصوصاً اداروں میں بہت اثرورسوخ تھا، جس کی وجہ تنظیم کا مظبوط تعلیمی ڈھانچہ اور تربیتی مراکز تھے، جہاں سے نوجوانوں کو تیار کر کے انہیں اداروں میں بھرتی کروایا جاتا اور پھر ان سے من چاہے کام لیے جاتے۔