سابق روسی صدر دیمتری میدویدیو نے متنبہ کیا ہے ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی سرد جنگ کے زمانے کی صورتحال اختیار کرگئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دھمکی اور پابندی کا نتیجہ مستقل عدم استحکام کی صورت میں نکلے گا۔
میدویدیو، جو اب ملکی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ ہیں نے نیوز ایجنسی آر آئی اے نوستی کے لئے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں روس اور امریکی تعلقات مخالفت سے محاذ آرائی کی طرف منتقل ہوگئے ہیں، بلکہ سرد جنگ کی طرف جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ کچھ ممالک کی جانب سے پابندیوں کا دباؤ، دھمکیاں، محاذ آرائی، حریصانہ مفادات کا دفاع، یہ سب مل کر دنیا کو عدم استحکام کی مستقل دلدل میں پھنسا رہے ہیں۔
سابق روسی صدر کا کہنا تھا کہ روس کے خلاف امریکہ کی منظم پراپیگنڈا مہم، نارڈ اسٹریم 2 پائپ لائن کی مخالفت اور یوکرین کے حوالے سے امریکی رویہ تعلقات کو بگاڑ رہے ہیں۔ انہوں نے 1962 میں کیوبا میزائل کرائسس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب سویت یونین نے ترکی اور اٹلی میں امریکی بیلسٹک میزائلوں کے جواب میں کیوبا میں میزائل نصب کیے تھے تو اس وقت کی قیادت نے ہی دونوں ممالک کو براہ راست کشیدگی سے بچایا تھا۔ تب بھی سمجھوتے کی حکمت عملی کام آئی تھی، اور اب بھی دونوں ممالک کو ایسے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، اس وقت بھی دونوں ممالک کے درمیان برابری کی سطح پر بات چیت ہوئی تھی جس کے باعث معاملات کو نمٹانے میں آسانی ہوئی، دھمکیوں اور الٹی میٹم کی زبان معاملات کو بگاڑتی ہے، واشنگٹن کو اس پالیسی سے نکلنا ہو گا۔
سابق صدر میدویدیو کا مزید کہنا تھا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ امریکہ اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی خطرات کو پیدا کر رہا ہے، لیکن پالیسی امریکہ کو مغربی دنیا کی قیادت سے گرا دے گی۔
سابق روسی صدر نے امریکی و روسی قیادت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مزید کشیدگی سے بچنے کے لئے ماسکو اور واشنگٹن کو براہ راست بات چیت کرنی چاہیے، کشیدگی کے دوران ایک چھوٹا سا غلط قدم، بے صبری یا کوئی تذویراتی غلط فہمی ساری دنیا کے امن کو تباہ کر کے رکھ سکتی ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ ہفتوں میں ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔ 15 اپریل کو امریکی صدر بائیڈن نے ایک انتظامی فیصلے پر دستخط کرتے ہیں روس پر مزید معاشی پابندیاں عائد کی ہیں اور روس کے مزید 30 افراد اور تنظیموں پر امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس کے علاوہ صدر بائیڈن نے روسی سفارتی مشن سے دس افراد کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا ہے جس کے جواب میں روس نے بھی دس امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ پہلے روس اور اب امریکی انتظامیہ نے اپنے سفراء کو مشاورت کے لیے واپس بلایا ہے۔