فرانس میں ادارہ جاتی نسل پرستی اور تعصب کی ایک نئی مثال سامنے آئی ہے۔ لبرل یورپی ملک نے افریقی شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم تنظیم بلیک افریقن ڈیفنس لیگ پر تقسیم اور نفرت کے پرچار کا الزام لگاتے ہوئے پابندی لگانے کا عندیا دیا ہے۔
وزیر داخلہ گیرالڈ دارمانن نے خصوصی ٹویٹر پیغام میں کہا کہ “میں نے بلیک افریقن ڈیفنس لیگ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تنظیم ملک میں تقسیم اور نفرت کا پرچار کرتی ہے، اسکی جانب سے معاشرے میں افراتفری اور بدامنی پھیلائی جاتی ہے، جیسا کہ گزشتہ ہفتے کیا گیا۔
تنظیم یورپ خصوصاً فرانس میں سیاہ فام شہریوں کے تحفظ کے لیے مظبوط آواز ہے۔ صرف فیس بک پر اس کے 3 لاکھ سے زائد حامی موجود ہیں۔ جبکہ اہم سماجی و تحریکی رہنما اس کے رکن ہیں۔
جس واقعے کو بنیاد بنا کر افریقی شہریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا اعلان کیا گیا ہے اس میں کچھ مقامی کرد اور افریقی شہریوں میں نجی بنیادوں پر جھگڑا ہوا تھا، جو بعد میں گھمسان میں بدل گیا۔ تنظیم کے رہنماؤں نے حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ جھگڑے میں انکی تنظیم کے ارکان کی جانب سے کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا، انتظامیہ مکمل تحقیقات کر کے سچ کو سامنے لائے، اور اس کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
دفتری کارروائی کے مطابق تنظیم کے پاس وزارت داخلہ کے فیصلے کے خلاف درخواست دینے کے لیے 15 دن کا وقت ہے، اور اگر تنظیم ایسا نہیں کرتی تو 15 روز میں صدر میخرون کے دستخط کے ساتھ ہی تنظیم کالعدم قرار دے دی جائے گی، اور اگر تنظیم درخواست دائر کرتی ہے تو فرانسیسی ریاستی کونسل افریقی شہریوں کے حقوق کی تنظیم کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
یاد رہے کہ فرانس میں صدر میخرون کے دور حکومت کے دوران مسلمانوں، افریقی، عرب نژاد شہریوں اور انکی پہچان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صدر میخرون واضح طور پر فرانس کے علاوہ کسی قسم کی پہچان کو ملک کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگا رہے ہیں، جس کے باعث ملک میں بے چینی اور ریاستی اعتماد میں کمی آئی ہے۔ رواں برس کے آغاز میں فرانس نے ترک قوم پرست گروہ بوز کرتلا (گرے وولوز) پر بھی پابندی لگائی تھی۔