ڈنمارک میں کلچر کے نام پر زمانہ جہالت سے جاری ڈولفن مچھلی کی بیہمانہ نسل کشی کی روایت کو مناتے ہوئے رواں برس بھی 1500 کے قریب مچھلیوں کو مار دیا گیا ہے۔
ڈنمارک کے خود مختار علاقے فاروع کے لوگ ہمیشہ سے ڈولفن کا گوشت کھاتے رہے ہیں لیکن 16ویں صدی عیسوی سے انکا اجتماعی شکار ایک روایت کی شکل اختیار کر گیا جو ماضی قریب میں کلچر کے نام پر ایک بیہمانہ نسل کشی کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ 2013 میں جزیرہ نما علاقے میں 430 مچھلیوں کو ایک دن میں قتل کیا گیا تھا، جس پر پوری دنیا میں شور کیا گیا۔ اس اعتراض کی بڑی وجہ علاقے کی کل آبادی کا صرف 53 ہزار نفوس پر مبنی ہونا ہے۔ یعنی چاہتے ہوئے بھی اتنی بڑی مقدار میں سمندری مخلوق کو یہ آبادی کھا نہیں سکتی۔ 2021 میں ہونے والی حد درجہ 1428 مچھلیوں کے ایک روز میں قتل پر نہ صرف بین الاقوامی بلکہ مقامی تنظیموں کی طرف سے بھی سخت مذمت کی گئی ہے اور اس جہالت کو ختم کرنے کے لیے ڈنمارک کی حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
جاہلانہ روایت کو مناتے ہوئے کچھ چھوٹی کشتیاں ہر برس موسم گرما کے آخر میں سمندر سے مچھلیوں کو کنارے کی طرف دھکیلتی ہیں جہاں تیز دھار آلوں سے لیس مقامی شہری انہیں پانی میں اتر کر مار دیتے ہیں۔ نسل کشی کے اس عمل کے باعث علاقائی سمندر کا پانی کئی روز تک مچھلیوں کے خون سے رنگا رہتا پے۔ اتنی بڑی مقدار میں مچھلیوں کے گوشت کو محفوظ نہ کر سکنے اور جہالت کو مناتے کے شوق کے بعد مردہ مچھلیوں کو دفن کر دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق رواں برس ہونے والی نسل کشی کے باعث علاقے کا سمندری ماحول بری طرح متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔