Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

بلاگ

ہمارے بچے فقط ’نوکر بننے‘ کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں

ہمارے بچے فقط ’نوکر بننے‘ کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں

بلاگ
مشہور کہاوت ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔ انیٹ لارو اپنی تحقیق میں اس بات کو مزید تقویت دیتی نظر آتی ہیں۔ شمولیتی کردار سازی ان کا متعارف کردہ ایک پرورش کا انداز ہے، جس میں والدین اپنے بچوں میں موجود صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے مختلف قسم کی منظم سرگرمیاں ان کی زندگی میں شامل کرتے ہیں۔ ہمارے دیسی اندازِ پرورش میں والدین انیٹ لارو کی تھیوری کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے اور بچے کی صلاحیتوں سے بھی قطع نظر اپنی خواہشات کے تناظر میں بچے کے کیرئیر کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس کی ذہن سازی شروع کر دیتے ہیں۔ میرا بیٹا تو بڑا ہوکے ڈاکٹر ہی بنے گا اس کے علاوہ انجینئر یا وڈا افسر بننے کی خواہش بھی ظاہر کی جاتی ہے۔ یعنی پچھلی کئی نسلوں نے تعلیم کے حصول کا واحد مقصد کسی کا نوکر بننے کی صلاحیت حاصل کرنا طے کر لیا ہے۔ اس صورت حال میں پرورش پانے والا بچہ ذہنی طور پر اپنے تمام معاشی مسا...
مغربی ذرائع ابلاغ اوراستشراقیت کی ترویج

مغربی ذرائع ابلاغ اوراستشراقیت کی ترویج

بلاگ
بیشتر مشرقی معاشروں میں احساس کمتری اور مغرب میں احساس برتری خود پیدا نہیں ہوئے، بلکہ اس کے لیے کچھ قوتوں نے باقائدہ کئی دہائیاں کام کیا ہے۔ کسی قوم کے زیادہ تہذیب دار، بہادر، اور کسی کے کم تر، بزدل ہونے کے بیانیے شاید صدیوں پہلے غیر ارادی طور پر شروع ہوئے ہوں، جن کا مقصد میدان جنگ میں محض افواج کے یا اقوام کے حوصلے کو بڑھانا ہو پر اس کے اثرات کو بھانپ جانے کے بعد اسے بدعنوان عناصر نے دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا، جس کے لیے سائنسی علوم اور ذرائع ابلاغ کا بھی بھرپوراستعمال کیا گیا۔ معروف مثالوں میں سیاہ فاموں سے متعلق ہارورڈ اور آکسفورڈ کی تحقیقات اور دونوں عالمی جنگوں میں ذرائع ابلاغ کے استعمال ہیں۔ مسئلے کے ادراک کے بعد دنیا بھر سے صاحب فکر افراد نے استشراقیت کے عنوان سے مسئلے پر بھرپور کام کیا اور انسانیت کی بھرپور رہنمائی کی۔ تاہم اس غیر فطری انسانی تفریق سے ج...

Contact Us