ترک حکومت نے مغربی ممالک کی جانب سے ملکی سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے وضاحتی بیان کے بعد 10 ممالک کے سفراء کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ترک صدر رجب طیب ایردوعان نے عثمان کاوالا کے خلاف قائم مقدمات پر 10 مغربی ممالک کے مشترکہ حمایتی بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی کو ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں، ترکی کو نوآبادیات یا طفیلی ریاست نہ سمجھا جائے۔ مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں کہ وہ ترک عدالتی نظام پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے اور جیل میں قید ایک ملزم کو رہا کرنے کا مطالبہ کرے۔ اس حوالے سے ترک صدر نے وزیرخارجہ میولود چاؤش اوعلو کو فوری ان ممالک کے سفراء کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
جواب میں امریکہ سمیت تمام 10 ممالک کے سفارت خانوں نے باقائدہ بیان میں کہا ہے کہ وہ ویانا معاہدے کی شق نمبر 41 کے پابند ہیں اور ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
باقائدہ وضاحت کے بعد ترک صدر نے بھی سفراء کو ملک بدر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم بھی کسی ملک کے ساتھ تنازعہ نہیں چاہتے، سفارت خانوں نے اپنے سابقہ بیان کی وضاحت کر دی ہے، سفیر اپنی سفارتی ذمہ داریوں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔
تاہم صدر ایردوعان کے معاون فخرالدین آلتن نے ایک الگ بیان میں کہا ہے کہ ملکی عدالتی نطام کی توہین کرنے والے سفراء کے خلاف ضروری کارروائی ضرور عمل میں لائی جائے گی۔ ترکی اپنی قومی خود مختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرےگا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکہ، کینیڈا، جرمنی، فرانس، فن لینڈ، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، نیوزی لینڈ اور نیدر لینڈ نے ایک مشترکہ بیان جاری یا تھا جس میں ایک ترک نژاد فرانسیسی شہری کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عثمان کاولا پر الزام ہے کہ وہ ملک میں انتشار پھیلانے اور کالعدم تنظیموں کی معاونت کرتے رہے ہیں، عثمان کاوالا سن 2017 سے قید ہیں اور ان کے خلاف مقدمات ملکی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ ان پر 2016 کی فوجی بغاوت کی حمایت اور 2013 کے غازی پارک ہنگاموں کی امداد کا الزام بھی ہے۔