محققین کے مطابق سن 2064 کے بعد دنیا کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے گی تاہم عالمی شرحِ تولید میں ہونے والی اس ’حیرت انگیز‘ کمی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے دنیا پوری طرح سے تیار نہیں ہے۔
تحقیق کے مطابق اگر موجودہ سیاسی نظام ہی جاری رہا تو اس صدی کے اختتام تک ہر ملک کی آبادی میں کمی واقع ہو گی اور 23 ممالک کی آبادی، جن میں سپین اور جاپان بھی شامل ہیں، سنہ 2100 تک آدھی رہ جائے گی۔ جسکا بلاواسطہ مطلب یہ بھی ہے کہ عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا اور بہت سے شہری 80 برس یا اس سے زیادہ عمر کے ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق اس کا سبب کچھ اور نہیں بلکہ عورتوں کی شرح تولید میں کمی یعنی بچوں کو نہ پیدا کرنے کے رحجان کا پروان چڑھنا ہے۔ اگر ایک عورت کے بچے جننے کی شرح 2.1 سے کم ہو جائے تو آبادی میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔
سنہ 1950 میں ایک عورت زندگی میں اوسطاً 4.7 بچوں کو جنم دیتی تھی۔ مجوزہ تحقیق امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی میں قائم ادارہ برائے ہیلتھ میٹرِکس اینڈ ایویلویشن کی جانب سے سامنے آئی ہے، محققین کا کہنا ہے کہ سنہ 2017 میں یہ شرح کم ہو کر 2.4 رہ گئی تھی اور اس صدی کے اختتام تک یہ مزید کم ہو کر 1.7 رہ جائے گی۔
تحقیق کے مطابق 2064 تک عالمی آبادی 9.7 ارب تک پہنچنے کے بعد گرنا شروع ہو جائے گی اور 2100 میں 8.8 ارب پر آ جائے گی۔ محقق پروفیسر کرِسٹوفر مرے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پوری دنیا میں قدرتی طور پر آبادی میں کمی بڑی بات ہے۔
’اسے سمجھنا اور ماننا ایک مشکل کام ہے، یہ بہت غیر معمولی بات ہے، ہمیں اپنے معاشروں کو بدلنا ہوگا۔‘
شرح تولید میں کمی کا سبب
ماہرین کے مطابق اس کا تعلق مردوں میں نطفوں کی کمی سے نہیں بلکہ خاص سیاسی نظام کے تحت خواتین کا گھریلو زندگی کو کم تر سمجھنا اور ملازمت اختیار کرنا ہے۔ اس کے علاوہ مانع حمل طریقوں نے بھی عورتوں کو کم بچے جننے کے انتخاب کی سہولت نے مسئلے میں اضافہ کیا ہے۔
یہ مسئلہ کیوں ہے؟
محققین نے تحقیق کے بعد اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ شاید کچھ لوگ سوچیں کہ یہ ماحول کے لیے اچھا ہے۔ آبادی کم ہوگی تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی ہوگی اور زراعت کے لیے جنگلات کی کٹائی میں کمی واقع ہوگی۔
پروفیسرے مرے کہتے: بظاہر یہ بات درست لگتی ہے تاہم معاشرے میں جوانوں کی کمی اور بوڑھے افراد کی زیادتی کے اپنے اور خطرناک منفی اثرات ہوں گے۔
تحقیق میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق سنہ 2017 میں پانچ برس سے کم عمر بچوں کی تعداد 681 ملین کے مقابلے میں 2100 میں 401 ملین ہو جائے گی۔
جبکہ 80 سال عمر کے افراد کی تعداد سنہ 2017 میں 141 ملین کے مقابلے میں سنہ 2100 میں 866 ملین ہو جائے گی تو ایسے میں معمر افراد کی دنیا میں کام کون کرے گا؟ اور ٹیکس کون دے گا؟ ان افراد کی دیکھ بھال کے اخراجات کون اٹھائے گا؟ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ کیا بڑی عمر کو پہنچ کر لوگ ریٹائر بھی ہو سکیں گے؟
مثلاً جاپان کی آبادی سنہ 2017 میں اپنے نقطۂ عروج پر 128 ملین تک پہچنی تھی جو اس صدی کے اختتام تک صرف 53 ملین رہ جائے گی۔ اسی عرصے کے دوران اٹلی کی آبادی 61 ملین سے کم ہو کر 28 ملین رہ جائے گی۔
اسی طرح 23 ملکوں کی آبادی، جن میں سپین، پرتگال، تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا شامل ہیں، آدھی رہ جائے گی۔
دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین کی آبادی بھی اگلے چار برس میں نقطۂ عروج پر پہنچ کر 1.4 ارب ہو جائے گی جو 2100 تک گر کر 732 ملین رہ جائے گی۔ اس کی جگہ ہندوستان لے لے گا، تاہم ہندوستان کی آبادی بھی کمی کا شکار ہو گی۔
یہ یقیناً ایک عالمی مسئلہ بن کر سامنے آئے گا جہاں 195 ملکوں میں سے 183 ملکوں کی شرح تولید میں کمی واقع ہو گی۔
کیا اس کا کوئی حل بھی ہے؟
برطانیہ جیسے ملکوں نے اپنی آبادی میں اضافے اور شرح تولید کی کمی پوری کرنے کے لیے تارکین وطن کا سہارا لیا ہے۔ مگر یہ حل دیرپا نہیں کیونکہ جب ہر جگہ ہی عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھے گی تو جوان کہاں سے آئیں گے۔
پروفیسر مرے کہتے ہیں کہ اس طرح سرحد کھولنے یا نہ کھولنے کا اختیار ختم ہو جائے گا اور یہ ممالک تارکین وطن کو اپنے طرف راغب کرنے کے لیے مسابقت کریں گے۔
بعض ملکوں نے زچگی تعطیلات میں اضافے، بچوں کی مفت نگہداشت، مالی ترغیبات اور ملازمین کو اضافی حقوق دینے کی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں مگر مسئلے کا کوئی ایک واضح حل نہیں ہے۔
سویڈن اپنی شرح تولید کو 1.7 سے 1.9 کرنے میں کامیاب رہا، مگر کئی دوسرے ممالک بچوں کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ سنگارپور میں شرح تولید اب بھی 1.3 ہے۔
ماہرین نے خواتین کی تعلیم اور مانع حمل طریقوں کے سلسلے میں ہونے والی پیشرفت کو ختم کرنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
پروفیسر ایمِل وولسیٹ کا کہنا ہے کہ آبادی میں کمی بہت سے ملکوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھرے گی مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین کی تولیدی صحت اور ان کے حقوق کے سلسلے میں ہونے والی پیشرفت پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے۔
تولیدی شرح کے لیے 2.1 کی حد کیوں؟
بہت سے لوگ سوچیں گے کے دو والدین کے دو بچے ہوں تو آبادی کی موجودہ سطح برقرار رکھنے کے لیے کافی ہے۔
مگر صحت کی بہترین سہولیات کے باوجود تمام بچے جوانی کو نہیں پہنچ پاتے۔ پھر لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی پیدائش کی شرح قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کی درست شرح مبادلہ 2.1 سمجھی جاتی ہے۔
پھر جن ملکوں میں بچوں میں شرح اموات زیادہ ہے وہاں بھی اضافی شرح تولید کی ضرورت ہے۔
ماہرین کیا حل تجویز کرتے ہیں؟
یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر ابراہیم ابوبکر کہتے ہیں کہ ’اگر یہ اندازے آدھے بھی صحیح ہیں تو تارکین وطن کی ضرورت ہر ملک کو پڑے گی۔ اور حقیقی تبدیلی کے لیے ایک نئی عالمی سیاسی سوچ اور نظام کی ضرورت ہے۔