امریکہ میں حالیہ مظاہروں اور تشدد میں نمایاں طور پر سامنے آنے والی تنظیم انتیفا کے بارے میں جاری ہونے والی دستاویزی فلم کو ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں یو ٹیوب اور وائمیو نے ہٹا دیا ہے، جس پر امریکی سماجی میڈیا پر نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
“انتیفا: سیاہ فام سیاست کا ابھار” نامی دستاویزی فلم نشر ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی یو ٹیوب اور وائمیو سے ہتا دی گئی، جس کے جواز کے طور پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ فلم اداروں کے قوانین کی خلاف ورزی پر ہٹائی گئی ہے۔
یوٹیوب نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ویڈیو کے مواد پر حقوق کا دعویٰ کیا گیا تھا جبکہ وائمیو نے ویڈیو میں تشدد کا بہانہ کر کے ویڈیو کو ویب سائٹ پر دوبارہ اپلوڈ کرنے اجازت نہیں دی ہے۔ تاہم یو ٹیوب پر اصلی اور مکمل ویڈیو کو ہٹانے کے باوجود فلم کو عمر اور دیگر پابندیوں کے ساتھ ٹکروں کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
دستاویزی فلم کے ہدائیتکاروں میں ایک اہم نام صحافی جیک پوسوبیک کا بھی ہے، انہوں نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ انہیں ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے سنسرشپ کا خطرہ تھا، اس لیے انہوں نے ویڈیو کو بیک وقت مختلف ویب سائٹوں پر چڑھایا، جن میں سے پیور سوشل ٹی وی، رمبل اور بٹکیوٹ بھی شامل ہیں۔
فلم میں صدر ٹرمپ کے دور میں انتیفا کے زیادہ ابھرنے اور مغربی دنیا میں انقلابی سیاست کے عوامل پر بات کی گئی ہے۔ دستاویزی فلم میں متحرک برطانوی سیاسی کارکن رحیم قاسم اور قومی سلامتی کے مشیر ڈیوڈ رائیبوئے کی رائے کو بھی فلمایا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دستاویزی فلم کو ٹیکنالوجی ویڈیو ویب سائٹوں سے ہٹانے کی وجہ انتیفا کے بارے میں اس رائے کو سامنے لانا ہے جو بائیڈن، لبرل ڈیموکریٹ اورعمومی میڈیا عوام کو دکھانا نہیں چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ جو بائیڈن نے صدارتی مباحثے میں انتیفا کو “ایک بہترین فکر” کا نام دیا تھا۔ اور امریکی میڈیا اس کی جانب سے کیے جانے والے ہنگاموں اور پر تشدد مظاہروں کو شدید مگر پرامن کہتا رہا ہے۔
صحافی جیک پوسوبیک کا کہنا ہے کہ فلم میں دکھائی گئے تمام مناظر عمومی میڈیا سے ہی لیے گئے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی منظر ایسا نہیں جو پہلے عوامی سطح پر نہ چلا ہو، لہٰذا اگر یہ فلم پر تشدد ہے تو عمومی میڈیا پر ان مناظر کا دکھانا بھی پر تشدد مواد تھا۔