محققین کو انسانوں میں علاج کے باوجود بہتری نہ آںے اور موت کی وجہ بننے والی جینیاتی تبدیلی کا پرہ چلا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس جینیاتی تبدیلی کے شکار مریضوں پر کوئی دوا اثر نہیں کرتی اور مریض موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔
جین میں اس تبدیلی کو ویکیول، ای1 انزائم، ایکس لنک، آٹوانفلامیٹری اور سومیٹک سنڈروم کا نام دیا گیا ہے، جسے مختصراً ویکسس بھی کہا جا سکتا ہے۔ ویکسس کے شکار انسانوں کے جسم میں خون کے لوتھرے بننا شروع ہو جاتے ہیں، بار بار بخار کی شکایت رہتی ہے، پھیپھڑے بھی ٹھیک سے کام نہیں کرتے اور ہڈیوں کے گودے میں موجود خصوصی ویکیول جو کہ قوت مدافعت کے لیے کام کرتے ہیں، متاثر ہو جاتے ہیں۔
محققین نے جین میں تبدیلی کے عمل کو 2500 سے زائد ایسے مریضوں میں پایا ہے جو مسلسل علاج کے باوجود طبیعت میں بہتری محسوس نہیں کر رہے تھے۔ جبکہ حاصل ہونے والی معلومات کے موازنے سے پتہ چلا ہے کہ 25 نوجوانوں میں خاص یوبی اے1 جین میں تبدیلی ہوئی ہے، جسے ویکسس کا ماخذ قرار دیا جا رہا ہے۔
تحقیقی گروہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہم نے علامتوں میں مماثلت کے بجائے مریضوں کے ڈی این میں جین میں پائی جانے والی مماثلت پہ توجہ مرکوز کی، اور یوں موت کی وجہ بننے والی اس جنیاتی تبدیلی کو دریافت کرنے میں کامیاب رہے۔
تحقیق پر کام کرنے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جینیاتی تبدیلی خطرناک ہے، کیونکہ اسکا شکار 40 فیصد افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ان پر نہ تو کوئی دوا اثر کرتی ہے اور نہ کوئی سٹیرائیڈ انہیں بچا پاتا ہے۔