امریکی انتخابات میں تنازعے کے بڑھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاست مشی گن میں ایک معروف ڈاک کمپنی میں کام کرنے والے ملازم نے دعویٰ کیا ہے کہ اسکے سربراہ نے اسے اور عملے کے دیگر افراد کو تاخیر سے پہنچنے والے ووٹوں پر پچھلی تاریخ ڈالنے کا حکم دیا۔ ملازم کے دعوے پر کمپنی نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
میڈیا پر انکشاف کو ویریٹاس منصوبے کے سامنے آجانے کا نام دیا گیا ہے۔ ویریٹاس سافٹ ویئر کے شعبے میں ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو کمپنیوں کی خاص ضروریات کے تحت انکی معلومات اور سافٹ ویئر میں حساس اور خفیہ تبدیلیاں کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
ملازم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اسے اور اسکے دیگر ساتھیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ بدھ تک ڈاک کے ذریعے آنے والے تمام ووٹوں کو الگ رکھیں، اور شام کو ان سب پر پچھلی تاریخوں کی مہر لگا دیں۔
ملازم کے مطابق ایسا کرنے کے بعد ووٹوں کی پرچیوں کو تیز ڈاک کے لفافوں میں ڈالا گیا اور انہیں متعلقہ پولنگ اسٹیشنوں پر ارسال کر دیا گیا۔ ریاست مشی گن کے قانون کے مطابق ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹ کو سوموار کی رات 8 بجے تک مہر لگی ہونی چاہیے تھی، اور اس سے تاخیر والی ڈاک کے ووٹ کو قبول نہیں کیا جانا تھا۔
ملازم کا کہنا ہے کہ اس نے معاملے کی اطلاع ڈاک کمپنی کی دوسری شاخ کے مدیر کو بھی دی تھی، اور اس نے بھی برانچ کے سربراہ کو پچھلی تاریخ کی مہر لگاتے ہوئے دیکھا تھا، اگرچہ ادارے کے اصول کے مطابق یہ کام ایک ملازم کرتا ہے۔
سازش کو سامنے لانے والے صحافی جیمز اوقیف کا کہنا ہے کہ اس نے ملازم کے الزام پر ڈاک کمپنی کی متعلقہ شاخ پر فون کر کے سربراہ کا مؤقف لینا چاہا تو وہاں سے سوال سن کر فون بند کر دیا گیا۔ صحافی نے مزید دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خود شاخ کا دورہ کیا تو اسے وہاں کمپنی کا قانونی مشیر تحقیقات کروانے یا نہ کروانے کے حوالے سے گفتگو کرتا ملا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاست مشی گن میں دھاندلی کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے، اور انکا دعویٰ ہے کہ ریاست کے سیکرٹری نے دونوں بڑی جماعتوں کی موجودگی کے بغیر ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹوں کی گنتی کی۔
یوں جارجیا اور دیگر ریاستوں میں بھی مختلف وجوہات پر ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹوں کے وقت اور مقدار پر عدالت سے رجوع کیا گیا ہے۔