محققین نے کووڈ19 کے بچوں کو متاثر نہ کرپانے کی وجہ ڈھونڈ نکالی ہے، اور اس بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ وباء سے نمٹنے کا نیا طریقہ بھی اپنایا جا سکتا ہے۔
تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ بچوں میں ایک خاص درآور پروٹین/ریسیپٹر پروٹین اور عمر کے ساتھ بڑنے والی اینزائم کی مقدار بڑوں کی نسبت کم ہوتی ہے، جوسارس کووڈ2 وائرس کو پھیپھڑوں میں داخل ہونے میں سہولت دیتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ وہ حیران تھے کہ وائرس نومولود یا کم عمر بچوں کو کیوں متاثر نہیں کر پاتا، اور اگر کرتا بھی ہے تو ان میں سنجیدہ حد تک علامات سامنے نہیں آتیں، اس سوال کے جواب کی تلاش میں انہوں نے وائرس کے پھیپھڑوں میں داخل ہونے کے عمل کا مطالعہ کیا۔ محققین نے پایا کہ جب وائرس پھیپھڑوں میں داخل ہوتا ہے تو اوپر ذکر کیے گئے پروٹین کی ابھری ہوئی کنڈیاں کورونا وائرس کے تاج نما ابھاروں کو اپنے اندر پھنسا لیتی ہیں، پروٹین کی یہ کنڈیاں خصوصی طور پر پھیپھڑوں کی بیرونی سطح پر پائی جاتی ہیں، اور بیرونی اشیاء کو اندر داخل کرنے کا کام سرانجام دیتی ہیں۔ یوں پروٹین کی کنڈیوں میں پھنسا وائرس پھیپھڑوں کی جلد کے خلیوں کی دیوار کو اپنے اوپر لپیٹتے ہوئے خلیے کے اندر داخل ہو جاتا ہے، خلیے کے اندر داخل ہونے کے اس عمل میں ممالیہ جانوروں میں پیدا ہونے والی ایک خاص اینزائم ٹی ایم پی آر ایس ایس-2 اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور یوں بالآخروائرس خلیے میں داخل ہو کر اسکے جینیاتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بڑھوتری شروع کر دیتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ وہ تحقیق میں اس چیز پر توجہ مرکوزکیے ہوئے تھے کہ وائرس کے پھیپھڑوں کو متاثر کرنے کے عمل کو سمجھا جائے اور دیکھا جائے کہ کیوں بڑوں کے پھیپھڑے بچوں کے پھیپھڑوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، ان میں کیا چیز مختلف ہے؟
پہلے چوہوں پر کی گئی تحقیق میں محققین ایک خاص طریقے سے پھیپھڑوں کے خلیوں کی سطح پر جینیاتی ردعمل کو سمجھنے میں کامیاب رہے، اور یہ جاننے میں مدد ملی کہ کونسا جین کووڈ19 کے حملے کی صورت میں ردعمل دیتا ہے۔ چوہوں پر تجربے میں سامنے آیا ہے کہ ٹی ایم آر پی ایس ایس2 اینزائم زیادہ تیزی سے ردعمل دیتی ہے۔
محققین نے بعد میں مختلف عمر کے انسانوں کے پھیپھڑوں کے خلیوں پر تجربات کیے اور وہاں بھی اسی اینزائم کو ذمہ دار پایا۔ سائنسدانوں کے مطابق ٹی ایم پی آر ایس ایس2 نامی اینزائم کی مقدار بڑھتی عمر کے ساتھ جسم میں بڑھتی رہتی ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ اینزائم کو نہ صرف علاج بلکہ لوگوں کو وائرس کے خطرے سے بچانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔