ٹویٹر کے بانی جیک ڈورسی نے ایک انٹرویو میں عیاں کیا ہے کہ صرف گزشتہ دو ہفتوں میں ویب سائٹ انتظامیہ نے امریکی انتخابات سے متعلق 3 لاکھ سے زائد ٹویٹوں پر غیر مصدقہ ہونے کے انتباہی نشانات لگائے ہیں، جن مں صدر ٹرمپ کی 50 ٹویٹیں بھی شامل تھیں۔
بروز منگل امریکی کانگریس نے ٹویٹر کے بانی جیک ڈورسی، گوگل کے سی ای او سندر پیچائی اور فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو دوبارہ سیاسی معاملات میں مداخلت پر جوابدہی کے لیے طلب کیا اور سوالات کیے۔ پیشی میں سب سے زیادہ تنقید ٹویٹر پر صدر کے پیغامات کولے کر کی گئی۔
جس پر ڈورسی نے کہا کہ انہوں نے ملک میں انتخابی عمل پر عوامی یقین کر برقرار رکھنے کے لیے 2020 کے انتخابات میں خصوصی کام کیا ہے، چاہے اس کے لیے اپنی پالیسی کو بھی تبدیل کرنا پڑا۔ ہم نے صارفین کی ٹویٹوں کو مشکوک ہونے پر نشانات لگانے یا غلط ہونے پر مٹانے تک سے گریزنہیں کیا، تاکہ سیب سائٹ سے صرف درست معلومات عوام کے سامنے آسکے۔
کانگریس میں پیشی پر ڈورسی کو اکتوبر میں جو بائینڈن کے بیٹے سے متعلق نیو یارک پوسٹ کی خصوصی تحقیقاتی رپورٹ کو دبانے پر سوال ہوا تو ویب سائٹ کے بانی کا کہنا تھا کہ وہ ایک غلط فیصلہ تھا، ایسا غلطی سے ہوا، ہمیں لگا کہ خبر کا مواد ہیکنگ سے لیا گیا، اور اس کی دوہرے ذرائع سے تصدیق کیے بغیر ہم نے اپنی پالیسی کے تحت اسے دبایا، لیکن غلطی کا احساس ہوتے ہی، 24 گھنٹے کے اندر اندر ہم نے پیغام کو بحال کر دیا۔
سینٹر لِنڈسے گراہم نے فیس بک اور ٹویٹر دونوں کو نیو یارک پوسٹ کی خبر دبانے پر آڑے ہاتھوں لیا، سینٹر کا کہنا تھا کہ دونوں ویب سائٹوں نے آزادی رائے کے برخلاف جو بائیڈن کو بچانے کی کوشش میں ایڈیٹر کا کردار اپنایا۔
پیشی میں ڈورسی نے مزید بتایا کہ مجموعی طور پر دو ہفتوں میں انتخابات سے متعلق ٹویٹوں میں سے صرف صفر اعشاریہ 2 فیصد پر ہی غیر مصدقہ ہونے کے نشان لگائے گئے۔
پیشی کے دوران ڈیموکریٹ بھی سماجی میڈیا ویب سائٹوں کے ذمہ داران سے نالاں نظر آئے، جن کا کہنا تھا کہ ٹویٹر نے مصدقہ خبروں کے حوالے سے اپنی پالیسی پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ سینٹر رچرڈ بلومنتھل نے صدر ٹرمپ کے مشیر سٹیو بینن کے فیس بک پر ڈاکٹر فاؤچی اور ایف بی آئی ڈائریکٹر کسٹوفر رے سے متعلق انتہائی اشتعال انگیز پیغام پر انکا کھاتہ معطل نہیں کیا، یاد رہے کہ سٹیو بینن نے دونوں افراد کے سر کاٹ کر تلوار پر لہرانے کا پیغام نشر کیا تھا۔ سینٹر کا مزید کہا تھا کہ فیس بک کے ریکارڈ سے لگتا ہے کہ ویب سائٹ قدامت پسندوں کو بہت زیادہ گنجائش دیتی ہے۔
جس پر فیس بک کے بانی کا کہنا تھا کہ قابل اعتراض مواد کو ہتا دیا گیا تھا، تاہم پالیسی کے تحت ایسے مواد پر کھاتہ بند نہیں کیا جا سکتا۔