عالمی فوجداری عدالت نے مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں جرائم کی سنوائی کو دائرہ اختیار میں قرار دیتے ہوئے درخواستوں کو سننے کی منظوری دے دی ہے۔ فوجداری عدالت اب غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں قابض صیہونی افواج کے جرائم پہ سماعت کر سکے گی۔
قابض صیہونی انتظامیہ نے عدالتی فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج عالمی عدالت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ انصاف مہیا کرنے والا ادارہ نہیں بلکہ ایک سیاسی مرکز ہے۔ نیتن یاہو نے مزید الزام لگاتے ہوئے کہا کہ عدالت حقیقی جنگی مجرموں کے بجائے ایک جمہوری ریاست کو نشانہ بنا رہی ہے۔
دوسری جانب فلسطین کے وزیر خارجہ نے عالمی عدالت کے فیصلے کو سراہا ہے اور اسے انصاف کے لیے ایک تاریخی دن قرار دیا ہے۔ وزیراعظم محمد شتائح نے بھی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انصاف کی فتح تھی۔
عدالت کی معاون اعلیٰ فاطو بینسودا نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کا شمار فلسطینی علاقوں میں کیا جائے، کیونکہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قرادادوں کے مطابق یہ علاقے فلسطینی ہیں۔ ان پہ نہ تو کوئی سرحدی تنازعہ ہے اور نہ ہی ان میں کوئی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے کہ انہیں متنازعہ سمجھا جائے۔
واضح رہے کہ فلسطینی عرصہ دراز سے عالمی عدالت سے صیہونی افواج کے جرائم پر حکم صادر کرنے کی استدعا کرتی رہی ہے لیکن عدالت کسی واضح مؤقف کو اختیار نہ کر سکی۔ 2014 میں غزہ پر حملے اور مغربی علاقوں میں نئے قبضوں کے خلاف خصوصی طور پرفلسطینیوں نے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔
حالیہ عدالتی فیصلے پر امریکہ نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور امریکی دفتر خارجہ نے صیہونی فوجیوں کے تحفظ کے لیے نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی عدالت کے اعلیٰ جج پر اس سے پہلے بھی امریکہ پابندیاں لگا چکا ہے، اس کے علاوہ معاون اعلیٰ بنسودا پر افغانستان میں امریکی جرائم کی تحقیقات کی تجوہز دینے پر بھی پابندیاں لگا چکا ہے۔