فرانسیسی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے ملک میں اسلام کی تبلیغ روکنے کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔ بروز منگل منظور کیے قانون میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک کی لبرل اقدار کو بچانے کے لیے شدت پسند مذاہب کا رستہ روکنا ناگزیر تھا۔
قانونی مسودہ اب 30 مارچ کو سینٹ اجلاس میں پیش کیا جائے گا، اور امید کی جا رہی ہے کہ وہاں بھی اسے بلا مزاحمت منظوری مل جائے گی۔
فرانسیسی لبرل میڈیا نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ قانون شدت پسند اسلام کے خلاف لایا گیا۔ تاہم یاد رہے کہ مسودے میں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے۔
ملک میں موجود اسلامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت ملک میں مسلمانوں میں نئی تفریق کا پودا بو رہی ہے اور اسلام کو اپنے پسندیدہ رنگ میں ڈھالنے کی کوشش میں ہے۔ جو کوئی حکومتی اسلام سے متفق ہو گا صرف اسے سہولت دی جائے گی جبکہ باقی کو ہراساں کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ فرانسیسی صدر میخرون اور انکی حکومت مسلسل اسلام کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے آرہے ہیں، آپﷺ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت میں بھی میخرون حکومت نے باقائدہ کردار ادا کیا تھا جس پر مسلم دنیا کی جانب سے معاشی ناکہ بندی پر صدر میخرون نے کاروباری حلقے کے دباؤ پر معذرت کا اظہار کیا۔
صدر میخرون کا کہنا ہے کہ اسلام فرانس کی سو سے زائد سالوں کی لبرل اقدار سے متصادم ہے، جس پر ملک کی بنیادیں کھڑی ہیں۔
قانون کے دفاع میں وزیر اعظم جین کاسٹیکس کا کہنا ہے کہ قانون کسی خاص مذہب کے خلاف نہیں بلکہ شدت پسندی کے خلاف ہے۔ جس کے تحت ایسے اداروں اور تنظیموں کو روکا جائے گا جو فرانس کی لبرل اقدار کے خلاف تبلیغ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی گھر میں غیر لبرل تعلیم اور ذہن سازی کا رستہ بھی روکا جائے گا۔