گزشتہ اتوار برما میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرتے مظاہرین پر پولیس نے دھاوا بول دیا، اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں مختلف مقامات پر 38 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ ایک پولیس اہلکار بھی مارا گیا۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں ملک کے دارالحکومت رنگون میں درج ہوئیں، جہاں کچھ شرپسند عناصر نے ایک چینی فیکٹری میں زبردستی گھسنے اور لوٹ مار کرنے کی کوشش کی، جہاں حالات کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کو فائر کھولنا پڑا۔ فیکڑی دھاوے میں 22 افراد کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
مقامی نشریاتی اداروں کے مطابق مظاہرین نے بروز اتوار اس کے علاوہ چار کپڑے کی فیکٹریوں میں بھی لوٹ مار کی اور انہیں آگ لگا دی تھی، اس کے علاوہ ایک کھاد بنانے والے کارخانے اور تیل کے ٹرک کو بھی مشتعل مظاہرین نے نذرآتش کر دیا تھا، ان حالات کے پیش نظر اعلیٰ حکام نے بالآخر گولی چلانے کا حکم جاری کیا۔
بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق یکم فروری کو ملک میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے جاری مظاہرے اب پرتشدد ہوتے جا رہے ہیں، مظاہرین چاقو، ڈنڈوں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس ہو کر گھروں سے نکل رہے ہیں، جبکہ اب شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد ان میں مزید سختی آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
برما میں چینی سفارت خانے نے چینی سرمایہ کاری کو پہنچنے والے نقصان پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ چینی سفارت خانے نے برما میں مقیم چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے، اطلاعات کے مطابق بروز اتوار چینی فیکٹریوں میں حملوں کے دوران ان میں کام کرنے والے چینی تکنیکی ماہرین کو بھی نقصان پہنچایا گیا، اور متعدد اہلکار زخمی ہیں۔ سفارتی عملے نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت چینی مفادات کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے والے واقعے کی تحقیقات کرے اور ذمہ داران کو سزا دے۔
چین کے خلاف ابھرنے والی نفرت کی وجہ مغربی نشریاتی اداروں کی نفرت پر مبنی رپورٹوں کو مانا جا رہا ہے، جو برمی عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چین نے فوجی بغاوت کی ویسے مذمت نہیں کی جیسے مغربی ممالک نے کی۔
حالات کے پیش نظر فوج نے صنعتی شہر ہلائنگتھایا میں فوجی قانون نافذ کر دیا ہے۔