امریکہ میں ایک تازہ سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ سال امریکی نوجوانوں میں اسلحہ خریدنے کے رحجان میں 35 فیصد کا حد درجہ اضافہ ہوا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا ملک میں بگڑتے حالات اور بڑھتے دھنگے فساد کے پیش نظر کر رہے ہیں۔
راسموسن کی جائزہ رپورٹ ملک میں بڑھتے فائرنگ کے واقعات کے پیش نظر مرتب کی گئی ہے جسے امریکہ میں بندوق مخالف لابی کے ڈیموکریٹ ارکان کانگریس نے صدر جوبائیڈن کو اسلحے پر پابندی لگانے کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔
راسموسن کا کہنا ہے کہ انکی رپورٹ میں شامل اعدادوشمار ایف بی آئی کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ گذشتہ سال امریکہ میں 3 کروڑ 97 لاکھ نئی بندوقیں خریدی گئیں، جو 2019 کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک میں اسلحہ خریدنے کا رحجان اس قدر زیادہ ہے کہ گولیوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے، عوامی سروے کے مطابق تقریباً نصف آبادی کو شکایت ہے کہ انہیں اپنے ہتھیاروں کے لیے گولیاں نہیں مل رہیں۔
اطلاعات کے مطابق کچھ ریاستوں میں گولیوں کی قلت اتنی شدید ہے کہ محکمہ پولیس کو اپنے اہلکاروں کی تربیت کے لیے بھی گولیاں دستیاب نہیں۔
واضح رہے کہ عام شہریوں کے اسلحہ رکھنے کے حوالے سے امریکہ پہلے بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، جہاں دنیا میں اس وقت موجود مجموعی 85 کروڑ 70 لاکھ ہتھیاروں کا 46٪ امریکی شہریوں کی ملکیت میں ہے۔ جبکہ امریکی آبادی دنیا کا صرف 4 فیصد ہے۔
سن 2017 میں جاری اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں ہر مرد، عورت اور بچے کے پاس 1 سے زائد ہتھیار موجود ہیں۔
حالیہ برسوں میں ملک میں بڑھتے فسادات کے باعث ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے، جس میں کچھ کردار اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے چلائی جانے والی میڈیا مہم کا بھی ہے، کمپنیاں فسادات کے دوران عوامی املاک اور پولیس پر حملوں کو دکھاتے ہوئے خوف پھیلا رہی ہیں کہ اگر پولیس خود کو اور املاک کو نہیں بچا سکتی تو یہ انسانی جانوں کا تحفظ کیسے کرے گی، لہٰذا سب کو جدید اسلحہ خریدنا چاہیے۔