اسکاٹ لینڈ کی وزیراعلیٰ نیکولا اسٹرجن نے ایک بار پھر خودمختاری کے لیے استصواب رائے کروانے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ بروز اتوار بی بی سی سے گفتگو میں سٹرجن کا کہنا تھا کہ چاہے لندن کچھ بھی کہے لیکن وہ اسکاٹ لینڈ کی آزادی و خود مختاری کے لیے سنجیدہ ہیں اور اب اکثریتی حکومت بنانے کے بعد وہ اس قدام کو ضرور اٹھائیں گی۔
واضح رہے کہ اسٹرجن کی اسکاٹش نیشنل پارٹی مقامی انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں تقریباً کامیاب ہو گئی ہیں، انہیں 129 کے ایوان میں 65 نشستیں درکار تھیں اور وہ 64 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں، جبکہ انکی اتحادی جماعت اسکاٹش گرین پارٹی کو 8 نشستوں پہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
بی بی سی سے گفتگو میں اسٹرجن کا مزید کہنا تھا کہ وہ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے پرامید ہیں، یہ عوامی مطالبہ ہے لہٰذا برطانوی سامراج کا اسے روکنے کے لیے عدالت جانا انتہائی بے ہودہ اور اشتعال انگیز عمل ہوگا۔
واضح رہے کہ اسٹرجن کے آزادی کے مطالبے پر وزیراعظم بورس جانسن اور اس سے قبل تھریسا مے بھی شدید ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں۔
اسٹرجن کا کہنا ہے کہ وہ کورونا وباء کے فوری بعد اسکاٹ لینڈ میں استصواب رائے کے حق کو استعمال کرنے کا رادہ رکھتی ہیں، انہوں نے اپنے حامیوں سے وباء کے ختم ہونے تک انتظار اور صبر کی درخواست بھی کی ہے۔
بی بی سی سے گفتگو میں اسٹرجن نے عوامی رائے پر مبنی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ایلکس سیلمنڈ نے ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ 2012 میں علیحدگی سے متعلق بات چیت کا آغاز کیا تھا تو اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے30 فیصد سے بھی کم لوگوں نے اسکی حمایت کی تھی، تاہم ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 45 فیصد سکاٹی علیحدگی اور خود مختاری کے حامی تھے، اب عوامی سروے میں 50 فیصد سے بھی زیادہ افراد خود مختاری کے حامی ہیں، لہٰذا لوگوں کو انکے فیصلے مطابق جینے کا پورا حق دینا چاہیے۔
واضح رہے کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اسکاٹ لینڈ میں دوسرا استصواب رائے کروانے کی اجازت کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ جمعہ کے روز ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ایک ہی نسل میں دوسرا ریفرنڈم کروانا غیر زمہ دارانہ ہو گا اور وہ یہ لاپرواہی نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انکے خیال میں سکاٹی جماعت اب رائے شماری کے خیال سے رجوع کر لے گی، لیکن انہیں افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔
قانون کے مطابق مقامی اسمبلی کو ریفرنڈم سے روکنے کے لیے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکانا پڑے گا۔