شامی حکومت نے بشار الاسد کو 95 فیصد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ چوتھی بار منتخب ہونے کا اعلان کیا ہے۔ فتح کے اعلان کے ساتھ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر بشار الاسد نے دو مدمقابل امیدواروں کو شکست دی ہے، جن میں سے ایک مزاحمتی اتحاد کے سابق عہدیدار بھی شامل ہیں۔
شام کی مقننہ کے اسپیکر، حمود صباغ کے مطابق گزشتہ بدھ ہوئے انتخابات میں اندراج شدہ ووٹ دہندگان میں سے 78 فیصد نے حق رائے دہی استعمال کیا، جس میں سے 1 کروڑ 30 لاکھ ووٹ لےکر بشار الاسد کامیاب ہوئے۔
دوسری طرف شام کو بشار الاسد کی مطلق عنانی سے آزادی دلوانے کے لیے اٹھنے والی تحریک نیشنل فرنٹ کے سیکریٹری جنرل محمود احمد ماری نے تقریباً 470276 یا 3.1 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں، سوشلسٹ یونینسٹ پارٹی کے عبداللہ سلوم عبد اللہ نے تقریباً213968 ووٹ لے کر 1.5 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر رہے ہیں۔
وزیر داخلہ محمد الرحمن کے مطابق اہل ووٹرز کی کل تعداد جو اس وقت ملک کے اندر یا باہر موجود ہے1،81،07،000 شامیوں میں سے 1،42،39،140 ہے۔
نتائج کا اعلان ہونے کے بعد صدر بشار الاسد نے خصوصی بیان میں شہریوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔
مغربی ممالک نے پہلے ہی انتخابات کو ناجائز، غیر آزادنہ اور غیر منصفانہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اسد حکومت مہاجرین اور ملک سے باہر افراد کو ووٹ کا حق دینے سے انکاری ہے۔ لیکن اسد انتظامیہ نے انتخابات کو ملکی آئین کے عین مطابق قرار دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے وزرائے خارجہ نے انتخابات پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 میں بیان کردہ طریقہ کار سے باہر ان انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
کچھ شامی شہریوں نے مغربی ممالک کے اعتراض پر ردعمل میں کہا ہے کہ ان کے متعدد ہم وطن شہریوں کے ووٹ نہ دینے کی وجہ مغربی حکومتوں کی طرف سے گذشتہ ایک دہائی کے دوران شامی سفارت خانوں کو بند کرنا بھی رہا، جن ممالک نے شامہ سفارت خانے بند کیے وہی اب انتخابات کی مذمت کر رہے ہیں۔
اسد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے روس، چین، ہندوستان، برازیل، جنوبی افریقہ، وینزویلا، کیوبا، نکاراگوا، بولیویا، ایکواڈور اور آرمینیا سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی انتخابی مبصرین مدعو تھے، لہٰذا مغربی نکتہ چینی بلا جواز ہے۔