یورپی یونین کے دفتر خارجہ کے سربراہ جوزف بوریل نے افغانستان میں نیٹو کی شکست پر دلبرداشتہ ہو کر کہا ہے کہ یورپی اتحاد کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے، طالبان جیسا گروہ بظاہر نیٹو سے جنگ جیت گیا ہے اور اب ہمیں فوری ان سے سیاسی و سفارتی تعلقات بنانے چاہیے۔ اعلیٰ یورپی عہدے دار کا کہنا تھا کہ یورپی اتحاد کو افغانستان میں سب کے لیے بنیادی حقوق میں برابری کا مطالبہ کرنا چاہیے اور اسی شرط پر تعلقات کی بنیاد رکھنی چاہیے۔
جوزف بوریل کا کہنا تھا کہ یورپی اتحاد افغانستان کو مالی امداد فراہم کرتا رہے گا، لیکن امارات اسلامیہ افغانستان کو اس کے بدلے عالمی قوانین کی پاسداری کرنا ہو گی۔ امریکی قیادت میں افغانستان پر مسلط جنگ کے 20 برس بعد بھی طالبان افغانستان کی سیاسی و سماجی حقیقت ہیں، ایسے میں یورپی اتحاد کے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں کہ ان کے ساتھ گفت و شنید شروع کریں۔ ہمیں کابل انتظامیہ کے ساتھ تعلقات ہموار کرنا ہوں گے، تاکہ کسی قسم کے انسانی المیے یا مہاجرین کے خوف سے محفوظ رہ سکیں۔
جوزف بوریل کا کہنا تھا کہ حقیقت میں نیٹو کا القائدہ کو شکست دینے کا منصوبہ افغانستان میں ایک جدید قومی ریاست بنانے میں منتقل ہو گیا، یوں بظاہر ہم پہلے مقصد میں تو کامیاب رہے لیکن دوسرا منصوبہ بری طرح ناکام رہا۔
یورپی اعلیٰ عہدے دار کا بیان نیٹو اور امریکی عہدے داروں کے ساتھ طویل ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں اشرف غنی یا کابل انتظامیہ کی فوج یعنی امریکی تربیت یافتہ جتھوں کے ریت کی طرح ڈھیر ہو جانے پر بحث ہوئی۔ نیٹو سربراہ اور امریکی سیکرٹری خارجہ نالاں ہیں کہ کیسے کروڑوں ڈالر خرچ کر کے انکی تربیت یافتہ فوج ناکام ہو گئی؟ انکا کہنا تھا کہ تھا شاید طالبان بھی حیران ہوں کہ یہ کیسے ہو گیا۔
امریکی و یورپی اخبارات میں معاملے کی تحقیقات اور اس سے سبق سیکھنے پر زور دیا جا رہا ہے، تاہم حکومتیں مستقبل پر نظر رکھے ہوئے فوری اگلی حکمت عملی پر زور دے رہی ہیں۔ اس حوالے سے آئندہ چند ہفتے انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔