ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے جوہری معاہدے پر گفتگو شروع کرنے کے ہر طرح کے مغربی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کوئی تاریخ نہیں دیں گے کہ کب معاملے پر دوبارہ بار چیت شروع ہو سکتی ہے؟ انکا کہنا تھا کہ ایران اور مغربی ممالک کے “جلد” کا مطلب مختلف ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بات چیت جلد شروع ہو جائے گی جس پر ایک صحافی نے پوچھا کہ کتنی جلد؟ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ جلد کا مطلب ایک دن ہے، ہفتہ یا مہینہ؟ سوال کے جواب میں عبداللھیان کا کہنا تھا کہ مغرب ارو ایران کے “جلد” میں بہت فرق ہے۔ ایران کے لیے اس کا مطلب کوئی وقت نہیں بلکہ مناسب وقت ہے۔ نئی حکومت ابھی دستاویزات کا مطالعہ کر رہی ہے، معاملات کو اچھے سے سمجھ کر اس پر بات چیت شروع ہو گی۔
یاد رہے کہ 2015 میں ایران کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، روس، چین، جرمنی اور فرانس نے جوہری معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری منصوبے پر سودا کر کے اس کے بدلے مغربی ممالک سے بڑی معاشی پیشکش قبول کی تھی۔ لیکن 2018 میں امریکی صدر نے ایران پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا اور ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں لگا دی تھیں۔ امریکہ میں دوبارہ انتظامیہ کے بدلنے پر معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں لیکن ایران میں حکومت کے بدلنے پر ایک بار پھر معاملہ تعطل کا شکار ہے۔
امریکہ اب ایران پر جوہری منصوبے کی بندش کے ساتھ ساتھ خطے میں اسکی مداخلت کو بھی روکنے کی شرائط معاہدے میں شامل کرنا چاہتا ہے، لیکن ایران کا اصرار ہے کہ معاہدہ 2015 کی شکل میں ہی بحال ہو گا، اس میں مزید شرائط شامل نہیں کی جا سکتیں، اس کے علاوہ ایران معاہدہ توڑنے میں پہل کرنے پر امریکہ پر پہلے معاشی پابندیاں ختم کرنے کی شرط پر بھی بضد ہے۔