فرانس میں گزشتہ 50 برسوں میں صرف کیتھولک اسکولوں میں کم از کم 2 لاکھ 16 ہزار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ یورپی ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سے کی گئی ایک باقائدہ تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ 1950 سے 2000 کے دوران صرف کیتھوک اسکولوں کے عملے، جن کی تعداد (کم از کم) 3200 بتائی جا رہی ہے، اور ان میں اساتذہ اور انتظامی عملہ دونوں شامل ہیں، نے طلبہ کی بڑی تعداد کے ساتھ فعل بد کیا۔
سی آئی اے ایس ای نامی تحقیقاتی کمیشن نے 2018 میں تحقیقات کا آغاز کیا اور بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں ان اسکولوں سے وابستہ طالب علموں اور عملے کی بڑی تعداد سے خصوصی انٹرویو کیے۔ کمیشن نے گزشتہ جمعرات 2500 صفحات پر مبنی تفصیلی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ دیے گئے اعدادوشمار کو انتہائی احتیاط سے مرتب کیا گیا ہے اور یہ کم از کم تعداد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 50 سے 70 کی دہائی کے دوران کیتھولک اسکولوں نے بدنامی سے بچنے کے لیے زیادتی کی شکایات کو باہر نہ نکالنے کی پالیسی اپنائی، جس سے اس عمل کی اور زیادہ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تحقیقاتی ٹیم نے اس دورانیے کو اسکولوں کا بدترین دور کہا ہے۔
یاد رہے کہ کمیشن نے گزشتہ برس اعدادوشمار اکٹھا کرنے کے بعد 1 لاکھ بچوں کے زیادتی کا نشانہ بننے کا تخمینہ لگایا تھا، تاہم مکمل رپورٹ سامنے آنے پر یہ یہ تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
فرانسیسی کیتھولک اسکولوں میں بچوں کے ساتھ ہونے والے فعل بد کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے پر دنیا بھر میں کیتھولک اسکولوں کی ساکھ کو دھچکہ لگا ہے۔ تفصیلی رپورٹ کے سامنے آنے پر تاحال ویٹیکن کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل نہیں آیا البتہ گزشتہ برس ابتدائی معلومات کے سامنے آنے پر ویٹیکن نے جنسی جرائم میں ملوث عملے کے خلاف سخت کارروائی کی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔