مغربی ممالک میں سیاہ فام افراد کے حقوق کی تحریک خود نسلی تعصب کے بیانیے میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے۔
رواں ماہ برطانیہ میں سیاہ فام کی تاریخ کا مہینہ منایا جا رہا ہے۔ جس میں ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنے والے سیاہ فام افراد کے کارناموں اور کردار کو سراہا جائے گا۔ لیکن مہم پر کام کرنے والی ایک تنظیم کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر نسل پرستی پر مبنی ایسا مواد شائع کیا ہے جس پر سفید فام افراد کی جانب سے سخت ناراضگی کا اظہار سامنے آیا ہے۔
ویب سائٹ پر بیسوی صدی کی معروف افریقی نژاد امریکی نفسیاتی ماہر فرانسس کریس ویلسنگ کے اس نظریے کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں فرانسس دعویٰ کرتی ہیں کہ سفید فام نسل دراصل افریقیوں کے جین میں ایک غلط تبدیلی کے نتیجے میں سامنے آئی، جس میں جلد کی رنگت کے لیے درکار عنصر میلانن ناپید ہو گیا۔ فرانسس اپنی تحقیق میں مزید لکھتی ہیں کہ ملانن نہ صرف جلد کی رنگت بلکہ انسانی اخلاقیات کے لیے بھی اہم عنصر ہے۔ امریکی محقق لکھتی ہیں کہ غلط جینیاتی تبدیلی کی وجہ سے انسانوں میں پائی جانے والی اخلاقیات سفیدفام افراد سے ختم ہو گئیں اور وہ غیر انسانی رویے میں مبتلا ہو گئے۔ فرانسس مزید لکھتی ہیں کہ بداخلاق رویے کے باعث ہی افریقی لوگوں نے سفید فام کو برآعظم سے نکال باہر کیا اور وہ یورپ میں جا کر بس گئے۔ فرانسس کے مطابق سفید فام افراد نے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے بعد میں اعلیٰ ہونے کا نظریہ متعارف کیا۔
اس کے علاوہ 2020 میں سامنے آنے والے ایک تحقیقاتی مقالے میں پیش کردہ نظریے کو بھی بلیک لائف میٹر خوب استعمال کر رہی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یورپی اقوام کو عرصہ دراز تک غیر یورپی اقوام کے ساتھ غیر انسانی رویے کے لیے ابھارا جاتا رہا ہے، اور ایسا ادارہ جاتی سطح پر ہوا ہے، نظریے کے مطابق یہی وجہ ہے کہ غیر مساوی رویہ سفید فام افراد کی طبیعت کا حصہ بن چکا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے نسلوں کو محنت کرنا ہو گی۔۔
یاد رہے کہ برطانیہ اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک میں سفید فام افراد حتیٰ کہ سیاسی قیادت بھی سیاہ فام افراد کے حقوق کے لیے سرگرم ہے، اور ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں لیکن جوں جوں سیاہ فام افراد کے حقوق کی”بلیک لائف میٹر” نامی مہم تیز ہو رہی ہے، اس میں خود نسل پرستی کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ جس پر مختلف سیاسی و سماجی حلقوں میں تحفظات بڑھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ برطانوی شہری اس چیز پر بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ مہم میں عوامی ٹیکس کا پیسہ استعمال کیا جا رہا ہے، اور ملک کی بڑی آبادی کے خلاف نسل پرست معلومات کا پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ جبکہ مختلف موقعوں پر سرکاری اشتہارات مثلاً فوج میں بھرتی، جامعات میں داخلے اور ملازمتوں کے اشتہار بھی ان ویب سائٹوں پر شائع کیے جاتے ہیں، جس سے انکو مالی مدد ملتی ہے۔
ایسے حالات میں مہم کی قیادت کو انتہائی احتیاط سے آگے بڑھنا ہو گا وگرنہ مساوات پر مبنی معاشرے کے لیے صدیوں کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔
حسن شہزاد وڑائچ – جامعہ پنجاب، شعبہ قانون