کورونا ویکسین بنانے والی امریکی کمپنی موڈرنا کے 3 شراکت دار دنیا کے 400 امیر ترین افراد میں شامل ہو گئے ہیں۔ معروف جریدے فوربز کی تازہ اشاعت میں موڈرنا کمپنی کے بانی و سربراہ نؤبار آفیان، شریک بانی رابرٹ لینگر اور کمپنی کے پہلے سرمایہ کاروں میں شامل ٹیموتھی سپرنگر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تینوں افراد نے انفرادی سطح پر وباء کے دوران ویکسین بیچ کر 3 ارب 50 کروڑ ڈالر کمائے ہیں۔
امریکی لبرل میڈیا نے خبر کو بالکل نظر انداز کیا ہے اور روائیتی طور پر ویلن مسک (ٹیسلا)، جیف بیزوس (ایمازون) اور مارک زکربرگ (فیس بک) کو ہی موضوع بحث بنایا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں موڈرنا ویکسین کی تشہیر اور حکومتی سطح پر لابی کی جا رہی ہے۔ غریب ممالک کو بھی مختلف حیلوں بہانوں سے پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ موڈرنا ہی خریدیں۔
سپرنگر فہرست میں 5 ارب 90 کروڑ کے ساتھ 176ویں نمبر پر ہیں، آفیان 5 ارب ڈالر کے ساتھ 212ویں نمبر پر جبکہ لینگر 5 ارب ڈالر کے ساتھ 222ویں نمبر پر ہیں۔
معاملے پر سماجی حلقوں کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے، انکا کہنا ہے کہ وباء کے دوران ویکسین جیسی انسانی ضرورت کی شے سے دولت بنانا اور امیر افراد میں شامل ہونا کسی بھی طرح قابل ستائش نہیں۔ مالیاتی امور کے ماہرین اسے ٹیکس کی چوری اور حکومتی نوازشات سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
سماجی میڈیا پر شہری اس بات پر بھی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ویکسین کی پیداوار کے لیے بھی حکومت نے ٹیکس سےکمپنی کو 1 ارب 40 کروڑ ڈالر دیے، اور پھر اسی ویکسین کو ٹیکس کے پیسوں سے خریدا اور کمپنی کے مالکان کو دونوں ہاتھوں سے پیسے لٹائے۔
شعبہ صحت کے ماہرین اب بھی ویکسین کے کلیے پر کمپنی کی اجارہ داری پر سوال اٹھا رہے ہیں اور عالمی اداروں سے اس پر ضروری اقدام کی درخواست کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ویکسین پر موڈرنا یا کسی بھی کمپنی کی اجارہ داری کے خلاف تھے، فوربس کی نئی فہرست میں اگرچہ سابق امریکی صدر کا نام شامل ہے لیکن انکی دولت میں کمی واقع ہوئی ہے۔