روسی حکومت نے چین اور مشرقی ممالک کی ترقی کے خلاف مغربی ممالک کے نئے عسکری اتحادوں خصوصاً آؤکس (آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ) پر کڑی تنقید کی ہے۔ روسی حکومت نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ مغربی ممالک کا رویہ بین الاقوامی کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بنےگا۔ اور اس سے اسلحے کی نئی دوڑ کا آغاز ہو جائے گا، جو بین الاقوامی ہم آہنگی کے لیے اچھا نہیں، اس سے علاقائی اختلافات میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔
روسی دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدے دار نیکولائے نازدریو نے رشیا ٹوڈے سے گفتگو میں کہا کہ آسٹریلیا کو ٹوماہاک جیسے جدید میزائل دینے، براعظم پر امریکی فضائیہ کے دستوں کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ برطانوی جوہری آبدوز کے معاہدوں کی بات ہورہی ہے۔ چین کے خوف میں ایسے سنگین اقدامات کا مطلب ہے کہ مشرق بعید میں علاقائی اختلافات کو ہوا دینا مقصود ہے۔ اس سے خطے میں ہی نہیں دنیا میں بھی اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔
نازدریو کا مزید کہنا تھا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے دستخط کا حامل ایک ملک کیسے کسی ایسے معاہدے کی طرف جا سکتا ہے؟ مغربی ممالک کے دوہرے معیارات کی یہ ایک اور مثال ہوگا۔
واضح رہے کہ چین اور امریکہ کے بحری جہازوں کی بحیرہ جنوبی چین میں گزشتہ کچھ عرصے سے آمنے سامنے کی خبریں عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن رہی ہیں، اور اس پر مختلف ممالک کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی سامنے آتا رہتا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی قابل افسوس ہے کہ ممالک ایک دوسرے کے خلاف اتحاد بناتے ہیں، آؤکس یا ایسا کوئی بھی اتحاد علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے مسائل کا باعث بنے گا۔ انہوں نے روسی محاورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کا دوست بننا اچھی بات ہے لیکن کسی سے دشمنی میں دوست بنانا غلط ہے۔ اس سے علاقائی استحکام پر منفی اثر پڑے گا اور ہم سب اس سے متاثر ہوں گے۔ جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
واضح رہے کہ چین نے فوری طور پر اپنے خلاف کسی بھی ایسے اتحاد کی مذمت جاری کی تھی, چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسے سرد جنگ کی ذہنیت قرار دیتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ دار اقدام گردانا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اقدام سے ایک بار پھر مغربی دوہرے معیار کی عکاسی ہوتی ہے اور دنیا کو دکھ گیا ہے کہ کیسے مغربی طاقتیں عالمی سیاست کو گندا کرنے سے کسی طرح پرہیز نہیں کرتیں۔
یاد رہے کہ آسٹریلیا کے فرانس کے ساتھ آبدوزوں کے معاہدے کو نظر انداز کرنے کی ممکنہ پالیسی کے باعث فرانس نے بھی معاملے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ فرانس نے آوکس کو فرانس کی پھیٹ پر چھڑا گھونپنے سے مشابہت دی ہے۔