امریکی عدالت عالیہ نے 9/11 کے بعد ریاستی اداروں خصوصاً ایف بی آئی کی جانب سے مسلمانوں کی غیر قانونی جاسوسی کے ایک اہم مقدمے پر سماعت شروع کر رہی ہے۔ اس سے قبل نچلی سطح کی عدالتیں قومی راز عیاں ہونے کے جواز پر سماعت ملتوی یا مسترد کرتی رہی ہیں۔
آج امریکی ریاست جنوبی کیلیفورنیا سے مسلمانوں کے ایک گروہ کی نمائندگی کرتے ہوئے وکلاء کی تنظیم برائے تحفظ حقوق آزادی عدالت میں پیش ہوئے۔ انکا مؤقف تھا کہ ریاستی اداروں نے مذہبی تفریق کرتے ہوئے انکے حقوق کی پامالی کی اور صرف لیے مسلمان شہریوں کی جاسوسی کی کہ وہ مسلمان تھے۔
اس سے قبل نچلی عدالتوں میں ریاستی وکلاء یہ جواز پیش کرتے رہے ہیں کہ مقدمات کی ایک خاص حد سے زیادہ پیروی قومی راز عیاں ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جو ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ حکومتی جواز کو اپیل کورٹ نے مسترد کر دیا تھا، اور کہا تھا کہ عدالتیں خود ثبوت دیکھیں اور اس بات کو جانچیں کہ آیا حکومتی جواز درست بھی ہے یا نہیں، کیا واقع قومی راز عیاں ہو رہے ہیں یا حکومت اسے بطور بہانہ استعمال کر رہی ہے۔
مقدمے میں ایف بی آئی کے سابق کچھ اہلکاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جن میں 2006 سے 2007 کے دوران جنوبی کیلیفورنیا میں مسلم حلقوں میں چھپ کر جاسوسی کرنے والا کریگ مونتیل عرف فاروق العزیز بھی شامل ہے۔ کریگ ایک نو مسلم کے بھیس میں مسلم حلقوں میں شامل ہوا تھا، اور بیشتر مسلمانوں سے دوستی کر کے انکی گفتگو ریکارڈ کر کے اسے پیشگی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق کریگ نے ہزاروں لوگوں کی اسی طرح جاسوسی کی، وہ انہیں باتوں باتوں میں جہاد کے سوال پر لے جاتا اور انہیں دہشت گردی کے حملوں پر اکسا کر انکا ردعمل ریکارڈ کرتا۔
کریگ کے بارے میں جاننے کے بعد مسلمانوں نے ایف کو آئی کو اس کی شکایت درج کی تو عیاں ہوا کہ وہ انہی کا خفیہ ایجنٹ تھا۔
یاد رہے کہ حالیہ ہفتوں میں امریکی اعلیٰ عدالت کی جانب سے قومی رازوں کے جواز پر دبے مقدمات کی سنوائی کا یہ دوسرا واقع ہے، اکتوبر میں سپریم کورٹ نے گوانتاناموبے میں مظالم کے ایک مقدمے پر بھی شنوائی شروع کی تھی۔