چین نے یورپ کی یوکرین کے حوالے سے بے چینی اور اضطراب کا ذمہ دار نیٹو کو قرار دے دیا۔ اقوام متحدہ میں چینی مندوب زھینگ جُن کا کہنا تھا کہ نیٹو کی یورپ کو تحفظ دینے کی کوشش میں ضرورت سے زیادہ پھرتیاں، اور اس کے نتیجے میں پھیلاؤ، خصوصاً مشرق کی جانب پیش قدمی کی کوششیں عالمی امن کے لیے مسائل کو بڑھا رہی ہیں۔
چینی سفیر کا کہنا تھا کہ امریکی قیادت میں نیٹو، سرد جنگ کی ذہنیت کا شکار ہو گیا ہے۔ نیٹو کو اس ذہنیت سے نکلنا ہو گا۔
چینی سفیر نے خطاب میں مزید کہا کہ نیٹو مسائل پیدا کرنے والا ایک جوان ہے، جو خود اپنی فکر اور عمل میں تذبذب کا شکار ہے۔ ایک طرف نیٹو دفاعی اتحاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ دوسری طرف مسلسل اپنی سرحدیں اور مقاصد بڑھاتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو اتحاد، بیشتر ممالک میں چپکلش، خوف اور کشیدگی کو بڑھاتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے سفیر کا مزید کہنا تھا کہ کسی ایک ملک کو سیاسی تنہائی کا شکار کرنے کا نتیجہ ہے کہ یورپ آج اس اضطراب میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مجلس میں یورپی ممالک کو زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر نیٹو نے اپنا رویہ نہ بدلا تو نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کو اس کے اثرات بھگتنے ہوں گے۔
چینی سفیر نے ایک بار پھر نیٹو ممالک کو تنبیہ کی کہ یوکرین تنازعہ کو ختم کر کے بات چیت کی میز پر بیٹھا جائے۔ انہوں نے کارآمد اور مستحکم سکیورٹی ڈھانچے اور مشترکہ تحفظ کی حکمت عملی پر کام کرنے پر زور دیا۔ چینی سفیر کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے مزید بڑھانے سے پہلےنیٹو کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے پھیلاؤ کے منصوبوں کو ترک کر دینا چاہیے۔
دوسری طرف امریکہ اور چین کے مابین کشیدگی میں بھی ایک بات پھر اضافہ ہو گیا ہے، امریکہ نے چینی تحقیقاتی غبارے کو مار گرانے کے بعد چین کے ساتھ عسکری رابطے منقطع کر دیے ہیں اور مار گرائے جانے والے تحقیقاتی غبارے کو تیار کرنے والی کمپنی پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کا عندیا بھی دیا ہے۔
واضح رہے کہ چین نے مار گرائے جانے والے تحقیقاتی غبارے کے حوالے سے امریکہ کے تمام الزامات کو سرے سے مسترد کر دیا تھا اور جواب میں امریکہ کو نتائج کی دھمکی دی تھی۔ چین کا کہنا ہے کہ غبارہ ماحولیاتی تحقیق پر کام کر رہا تھا، اور اس کا کسی قسم کے عسکری مقاصد نہیں تھے۔ چین نے بھی غبارہ گرائے جانے کے بعد سے امریکہ کے ساتھ عسکری و سفارتی تعلقات کو محدود کر دیا ہے، اور ایک بار پھر امریکہ کو تنبیہ کی ہے کہ وہ تائیوان کو بغاوت پر اکسانے سے باز رہے۔ تائیوان کا مسئلہ اس کا اندرونی مسئلہ ہے۔