امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کل منگل کے روز مشرق وسطیٰ کے لیے اپنے مجوزہ امن منصوبے ‘سنچری ڈیل’ کا باقاعدہ اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ اس منصوبے سےآگاہی رکھنے والے سفارت کاروں نے اس حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ سنچری ڈیل کے ذریعے اسرائیل کے لیے فلسطینی علاقوں پر ‘ڈی فیکٹو’ کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کی سیکیورٹی کے لیے اراضی کے الحاق کی حمایت کریں گے۔امریکہ عالمی قوانین اور بین الاقوامی قراردادوں سے قطع نظر فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی ریاست کی موجودہ حیثیت اور قبضے کو جوں کا توں تسلیم کرنے کا اعلان کررہا ہے۔
اس کے بدلے میں امریکی انتظامیہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین مذاکرات کا آغاز کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ یہ پیش رفت فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرے گی۔
البتہ یہ امریکی میکانزم اب تک ہونے والے تمام مذاکرات، ان میں ہونے والی پیش رفت اور امن اقدامات سے متصادم ہے۔ صدی کی ڈیل کے حوالے سے سامنے آنے والی تمام دستیاب معلومات سے پتا چلتا ہے کہ امریکی انتظامیہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں قائم اسرائیلی کالونیوں کواسرائیل کا حصہ تسلیم کرے گی۔
امر واقع یہ ہے کہ اسرائیل نے سنہ 1967ء کی جنگ میں ان علاقوں پر قبضہ کیا اور وہ اس پر نہ صرف قابض ہے بلکہ اس نے یہاں بڑے پیمانے پر کالونیاں تعمیر کر رکھی ہیں۔ اس لیے اب اسرائیل کے لیے ان علاقوں سے پسپائی یا واپسی ممکن نہیں۔ امریکہ بھی اس نام نہاد ‘حقیقت’ کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی انتظامیہ نے ہفتوں قبل اس میکانزم کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار کی تھی جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی آبادیوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں مانتا۔ انہوں نے 18 نومبرسنہ 2019 کو کہا تھا کہ امریکی اعلان “زمین پر موجود حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔”
ماضی میں امریکی انتظامیہ کا فلسطین میں یہودی آباد کاری سے متعلق موقف مختلف رہا ہے۔ اسرائیل کے لیے ہرممکن لچک کے باوجود امریکہ نے کھل کر ان بستیوں کی حمایت نہیں کی۔
اسرائیل کی سیکیورٹی کی ضرورت کے پیش نظر صیہونی ریاست کو وادی اردن پر اپنا تسلط قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس طرح پوری اردنی سرحد پر اسرائیل ہی کا سیکیورٹی کنٹرول قائم ہوگا۔