امریکی انٹیلیجنس کے سربراہ اور جرمنی میں متعین امریکی سفیر رچرڈ گرینیل نے کہا ہے کہ برلن اتحادیوں کے ساتھ اپنی وعدوں کو نظرانداز کرتے ہوئے نیٹو کی جوہری صلاحیت کی پالیسی کو جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔جرمنی کو یاد رکھنا چاہئے کہ کہ روس اور چین کی جارحیت کوئی ماضی کے معاملات نہیں ہیں۔
امریکہ کی طرف سے گزشتہ برس اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ان کی دیکھ بھال پر 35.4 بلین ڈالر خرچ کیے جانے کی ایک رپورٹ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے جس کے محض ایک دن بعد جرمنی میں تعینات امریکی سفیر اور امریکی خفیہ ادارے کے حال ہی میں تعینات کردہ سربراہ رچرڈ گرینیل نے جرمن حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ نیٹو کی جوہری صلاحیت کی پالیسی کو جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ رچرڈ گرینیل نے خاص طور پر انجیلا میرکل کی اتحادی حکومت میں شامل جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کو تنقید کا نشانہ بنایا، جو جرمنی سے جوہری ہتھیار ہٹائے جانے کی حامی ہے۔
گرینیل کا کہنا ہے کہ صرف سرد جنگ ختم ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ یورپ کی سلامتی کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔روس کی یوکرائن میں دخل اندازی، روس کی طرف سے یورپ کے قرب میں نئے جوہری میزائلوں کی تنصیب اور چین، شمالی کوریا اور دیگر ممالک کی صلاحیتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ خطرہ موجود ہے۔‘‘
امریکی سفیر کے مطابق جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس جو ایس پی ڈی کے رُکن ہیں، جرمنی کو ‘امن کی ایک طاقت‘ بنانے کے لیے جرمنی سے جوہری ہتھیار ہٹانا چاہتے ہیں۔رچرڈ گرینیل نے مزید کہا، ”اس یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی بجائے، جو نیٹو کی جوہری دفاعی صلاحیت کی بنیاد ہے، اب وقت ہے کہ جرمنی کو اور خاص طور پر ایس پی ڈی کو اس بات کی وضاحت کرنا چاہیے کہ جرمن حکومت اپنی وعدوں کی پاسداری کر رہی ہے۔‘‘