روانڈا میں نسل کشی کے الزام میں سب سے زیادہ مطلوب فلیسین کابوگا اچانک چھبیس سال بعد فرانس سے برآمد ہو گئے ہیں۔ فرانسیسی وزارت قانون کے مطابق کابوگا کو پیرس کے مضافات سے گرفتار کیا گیا ہے۔
روانڈا کے لیے بنائے گئے انٹرنیشنل کریمنل ٹرائبیونل نے 84 سالہ کابوگا پر نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی فرد جرم عائد کر رکھی ہے، اور امریکہ نے ان پر پچاس لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔
کابوگا پر الزام ہے کہ وہ ہوتو نسل کے انتہا پسند گروہ کی مالی معاونت کرنے والوں میں مرکزی کردار تھے۔ اس نسلی گروہ نے سنہ 1994 میں تسی نامی اقلیتی برادری کے آٹھ لاکھ افراد اور سیاسی حریفوں کو قتل کیا تھا۔
مغربی ذرائع ابلاغ ایک لمبے عرصے تک کابوگا کے کینیا میں روپوش ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں، جس سے دونوں ممالک کی عوام اور رہنما ایک دوسرے کے بارے میں بدظن رہے۔
تاہم اب گرفتاری کوعالمی امن پسند حلقوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کابوگا کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر عالمی برادری، خصوصاً طاقتیں چاہیں تو عالمی سطح پر انصاف کی فراہمی میں کامیاب ہوا جا سکتا ہے۔ اور ایسے ہی کشمیر، برما، فسلطین اور دیگر ممالک میں بھی انصاف کے تقاضوں کوپورا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پر امن دنیا کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
کابوگا پر 1997 میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ ان کے خلاف نسل کشی میں معاونت، اشتعال انگیزی، سازش اور اقلیتوں پر مظالم جیسے الزامات ہیں۔ تاہم اب بھی دو مرکزی ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوسکے ہیں۔
روانڈا میں نسل کشی 6 اپریل 1994 کو ہوتو برادری سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے روانڈا کے صدر ایک طیارے پر سوار تھے جب اسے مار گرایا گیا۔ ہوتو انتہا پسندوں نے اس کارروائی کا الزام تتسی باغی گروہ ’روانڈن پیٹریاٹک فرنٹ‘ (آر پی ایف) پر لگایا تھا جس نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
قتل عام کی ایک منظم کارروائی میں ملیشیاؤں کو تتسی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرستیں دی گئیں جن میں سے کئی افراد کو انتہائی سفاکی سے قتل کیا گیا۔
ان میں سے ایک ملیشیا کا تعلق حکمراں جماعت کے طلبہ ونگ تھا جس نے توتسیوں کو پکڑنے کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں، ریڈیو پر ان کے خلاف نفرت پر مبنی پیغامات کے ذریعے عوام کو اکسایا اور گھر گھر چھاپے مار کر اقلیتی برادری توتسی کے افراد کو ڈھونڈا گیا۔
عالمی سطح پر اس نسل کشی کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گیے تھے۔ روانڈا میں اقوام متحدہ اور بیلجیئم کی فورسز موجود تھیں لیکن اقوام متحدہ کے مشن کو کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی بلکہ یہ امن دستے علاقے سے نکل گئے تھے۔
تتسی باغی گروہ آر پی ایف کو یوگینڈا کی حمایت حاصل تھی اور اس نے دارالحکومت کِگالی کی جانب مارچ کیا جس کے نتیجے میں ہوتو برادری کے تقریباً 20 لاکھ جمہوریہ کانگو ہجرت کر گئے۔