Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

بھارتی اور چینی افواج آمنے سامنے: ایک بڑے فوجی ٹکراؤ کا خدشہ

بھارت اور چین کی افواج مشرقی لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر متعدد مقامات پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئی ہیں جس کی وجہ سے 2017 کے ڈوکلام بحران کی طرح کے ایک بڑے فوجی ٹکراو کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت نے پیونگ یانگ اور گولوان وادی میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کردیا ہے۔

واضح رہے کہ پانچ مئی کو تقریباً پانچ ہزار چینی فوجی گالوان وادی میں داخل ہوگئے۔ 12 مئی کو اسی طرح کے ایک دیگر واقعے میں بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں چین فوجی پیونگ یانگ جھیل سیکٹر میں اور جنوبی لداخ کے ڈیم چوک اور شمالی سکم کے ناکو لا میں داخل ہوگئے۔

بھارت کے دفاعی تجزیہ نگار سابق کرنل اجے شکلا کہتے ہیں کہ ”دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان بات چیت نہیں ہورہی ہے اور مسئلے کا حل نکالنے کے لیے فلیگ میٹنگوں کی بھارت کی اپیل پر چین توجہ نہیں دے رہا ہے۔“ آرمی کمانڈر لفٹننٹ جنرل ڈ ی ایس ہوڈا کہتے ہیں ”یہ بہت سنگین بات ہے۔ یہ کوئی معمول کی دراندازی نہیں ہے۔“  ان کے خیال میں چینی دراندازی اس لیے غیر معمولی ہے کیوں کہ گالوان جیسے علاقے میں دونوں ملکوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔

چین میں بھارت کے سابق سفیر اور اسٹریٹیجک امور کے ماہر اشوک کے  کانتھا بھی لفٹننٹ جنرل ہوڈا کا کہنا تھا کہ”چینی فوج نے کئی مقامات پر دراندازی کی ہے۔ اور ایک یہ پریشان کن صورت حال ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل مشرقی لداخ میں صورت حال اس وقت تشویش ناک ہوگئی تھی جب پانچ مئی کو پینگ یانگ جھیل علاقے میں بھارت اورچین کے تقریباً ڈھائی سو فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں کا استعمال کیا اور پتھراو بھی ہوا۔ اس میں بھارت کے چار اور چین کے سات فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ نو مئی کو سکم کے ناکولا درہ علاقے میں پیش آیا تھا جب بھارت اورچین کے ڈیڑھ سو فوجی آمنے سامنے آگئے تھے اور اس جھڑپ میں دس فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ حالانکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کے تقریباً 100 فوجی زخمی ہوئے۔

چین نے انڈین آرمی پر اس کے علاقوں میں غیر قانونی طورپر دراندازی کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت سکم اور لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن کی ’حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوششکر رہا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انو راگ سریواستو نے اس الزام کی تردید کی کہ بھارتی افواج کے چینی علاقوں میں غیر قانونی طور پرد اخل ہونے کی وجہ سے یہ کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ2017 میں ڈوکلام میں بھارت اور چین کے درمیان 73 دنوں تک فوجی تعطل قائم رہا تھا۔ دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے سامنے آگئی تھیں۔

دفاعی امور کے ماہر سابق لفٹننٹ جنرل ہوڈا کا خیال ہے کہ چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر اقدامات کو دھمکی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”متعدد مقامات پر دراندازی کا مقصد بھارت پر دباؤ ڈالنا ہوسکتا ہے۔ مجھے پوری طرح اندازہ نہیں کہ چینی فوج کا اصل مقصد کیا ہے لیکن ان کے رویے نے ایک بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے۔“

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

eleven − 10 =

Contact Us